کبڈی کی دنیا کا ایک بڑا نام فخر چکوال مرزا نصیر شیری
تحریر: غلام عباس جنجوعہ
فوٹو گرافی: غلام مصطفے کیف
یہ ہیں کبڈی کی دنیا میں ضلع چکوال کا نام روشن کرنے والے "بےتاج بادشاہ" فخر چکوال مرزا محمد نصیر شیری جو 1974ء میں ہماری پیاری تحصیل چوآ سیدن شاہ کی یونین کونسل لہڑ سلطان پور کی "مغل برادری" میں پیدا ہںوئے،
نصیر شیری بچپن میں اس وقت کبڈی کے مشہور کھلاڑی چاچو حاجی امیر آف لہڑ سلطان پور کو کبڈی کھیلتے ہںوئے دیکھا کرتے تھے اور ان کو دیکھ کر ان کے اندر بھی کبڈی کھیلنے کا شوق پیدا ہںوا اور ہائی سکول کے زمانے میں کبڈی کھیلنا شروع کی اور گورنمنٹ ہائی سکول چوآ سیدن شاہ کی طرف سے ضلعی سطح کے کئی ٹورنامنٹس کھیلے اور اپنی سکول کی کبڈی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
نصیر شیری 1998ء پنجاب پولیس میں بھرتی ہوئے اور ضلعی سطح کے کئی کبڈی ٹورنامنٹس کھیلے اور پنجاب پولیس کی ٹیم کو ڈویژن کی سطع تک لے کر گئے اور راولپنڈی ریجن کی طرف سے کبڈی کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا اور ضلع چکوال کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوئے،
*مرزا محمد نصیر شیری کے کھیلے گئے کچھ یادگار کبڈی میچز اور انعامات کی تفصیل*
1995ء گوجر خان (چکڑالی) کے مقام طارق طاہری جبر اور ذوالفقار حیدری آف پنڈدادنخان کی کبڈی ٹیم کے درمیان ایک میچ کھیلا گیا جس میں کبڈی کے تمام انٹرنیشنل کھلاڑی حصہ لے رہے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں شائقین کبڈی اس میچ کو دیکھ رہے تھے، نصیر شیری اس میچ میں طارق طاہری جبر کی ٹیم کی طرف سے کبڈی کھیل رہے تھے انہوں نے اس میچ میں بطور ساہی نو وارے کیے اور نو کے نو پوائنٹ حاصل کر کے اپنی کبڈی ٹیم کو کامیابی دلوائی اور مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ وہ میچ تھا جس سے ہزاروں تماشائیوں کے سامنے کبڈی کی دنیا میں ان کی پہچان بنی اور ان کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو کئی سالوں تک جاری رہا۔
1997ء سرائے عالمگیر کے مقام پر ایک کبڈی میچ کے دوران جس میں تمام انٹرنیشنل کھلاڑی حصہ لے رہے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں شائقین کبڈی اس میچ کو دیکھ رہے تھے بطور ساہی دس وارے کیے اور دس کے دس پوائنٹ حاصل کرکے اس میچ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ ایوارڈ سونے کا لاکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
1998ء گوجر خان (پڈھانہ) کے مقام پر ایک کبڈی میچ کے دوران انٹر نیشنل کھلاڑی طارق وحید اور نصیر شیری کا آمنا سامنا ہوا نصیر شیری نے بطور ساہی گیارہ وارے کئے اور گیارہ کے گیارہ پوائنٹ حاصل کر کے اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
1998ء میرپور (ملوٹ) کے مقام پر ایک کبڈی میچ کھیلا گیا جس میں ان کا ٹاکرا محمد رفیع آف وزیرآباد سے ہںوا اور انہوں بطور ساہی تین پوائنٹ میں سے دو پوائنٹ حاصل کر کے اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے،
1998ء جہلم (جلال پور شریف) کے مقام پر ایک کبڈی میچ ظفر ظفری چک نمبر چونتیس اور شفقات زونا کی کبڈی ٹیم کے درمیان کھیلا گیا جس میں تمام انٹرنیشنل کھلاڑی حصہ لے رہے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تماشائی اس میچ کو دیکھ رہے تھے، اس میچ میں نصیر شیری نے شفقات زونا کی کبڈی ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے بطور ساہی پانچ وارے کیے اور پانچ کے پانچ پوائنٹس حاصل کرکے ایک ہارے ہںوئے میچ کو جیت میں تبدیل کر دیا اور مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
1999ء گوجر خان (برکی چوہان) کے مقام پر ایک کبڈی میچ پاکستان کبڈی ٹیم اور نصیر شیری کی کبڈی ٹیم کے درمیان کھیلا گیا جس میں نصیر شیری کا ٹاکرا انٹرنیشنل کھلاڑی بشیر بدھ کے ساتھ ہوا اور انہوں نے بطور ساہی نو وارے کیے اور نو کے نو پوائنٹ حاصل کر کے یہ میچ جیت لیا اور ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہںوئے،
1999ء سرائے عالمگیر شہر میں ایک کبڈی میچ کے دوران نصیر شیری کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی لیکن انہوں نے اپنے استاد محترم صوفی مظہر حسین آف سہگل آباد کے کہنے پر ہاتھ کی ہڈی ٹوٹنے کے باوجود بطور ساہی نو وارے کیے اور نو کے نو پوائنٹ حاصل کر کے اپنی طاقت کا لوہا منوایا اور اس میچ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ ایوارڈ ٹی وی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
2001ء میر پور (ملوٹ) کے مقام پر ایک کبڈی میچ کھیلا گیا جس میں تمام انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور ہزاروں کی تعداد میں شائقین کبڈی نے اس میچ کو دیکھا اس میچ میں نصیر شیری نے بطور جاپھی حصہ لیا اور پانچ کھلاڑیوں کو پکڑ کر اس کبڈی میچ کو اپنے نام کیا اور مین آف دی میچ ایوارڈ سونے کی انگوٹھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے،
2002ء چکوال (دھروگی راجگان) کے مقام پر ایک کبڈی میچ کھیلا گیا جس میں تمام انٹرنیشنل کھلاڑی حصہ لے رہے تھے کبڈی کھیلنے کے دوران ان کا گھٹنا (گوڈا) اتر گیا اور یہ اس میچ سے دستبردار ہو گئے اس طرح یہ میچ ان کی زندگی کا آخری میچ ثابت ہوا اور انہوں نے ساتھ ہی کبڈی کے کھیل سے ریٹائرڈ ہونے کا بھی اعلان کر دیا۔
مرزا محمد نصیر شیری کے پسندیدہ انٹر نیشنل کھلاڑی اور وہ کھلاڑی جن کے ساتھ کبڈی کھیل کر انہوں نے خوب انجوائے کیا۔
محمد رفیع آف وزیر آباد، خالق بٹ ضلع جہلم (موٹا غربی)، ظفر ظفری منڈی بہاالدین (پھالیہ)، شفقات زونا آف پننوال، بشیر بدھ آف مظفر گڑھ، اعجاز اللہ خان پٹھان آف میانوالی، ارشاد رینچ فیصل آباد (سمندری)، حفیظ اللہ آف جھنگ، یاسر جاوید آف لالہ موسی، استاد صوفی مظہر حسین چکوال (سہگل آباد)، جیدی گجر چکوال (پادشہان)، میاں افتخار احمد عرف خارا ڈھاباں آلا چکوال (ڈھاب خوشحال)
کبڈی کے ان تمام کھلاڑیوں نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔
نصیر شیری استاد صوفی مظہر حسین کے شاگرد ہیں اور ان کی کوچنگ اکیڈمی میں باقاعدہ کبڈی کے داو پیچ سیکھ کر میدان میں اترے اور کبڈی کی دنیا میں نام پیدا کیا، شہرت اور عزت پائی جو ہر کسی کھلاڑی کے حصے میں نہیں آتی اور اپنے استاد محترم کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوئے،
نصیر شیری استاد صوفی مظہر حسین کا دل سے احترام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کبڈی کھیلنے کے دوران میں نے جو مقام حاصل کیا اور مجھے جو شہرت اور عزت ملی یہ سب میرے استاد محترم کی مرہون منت ہے۔
نصیر شیری عباس خان عرف پہاڑ خان کو بھی اپنا استاد مانتے ہیں اور ان کا دل سے احترام کرتے ہیں جو کبڈی کے کھیل میں ان کو آگے لائے اور کبڈی کھیلنے کے دوران ہر قدم پر ان کی رہنمائی کی اور ہر موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کی اور یہ اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔
نصیر شیری کے بھائی ارشد بیگ بھی کبڈی کے نامور کھلاڑی تھے جب کہ ان کے بیٹے محمد داؤد سلطان کو کبڈی کے کھیل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے، وہ والی بال کھیلنے کا شوق رکھتا ہے اور والی بال کے کھیل میں اپنا نام اور مقام بنانا چاہتا ہںے اور اپنے بزرگوں کا نام اور اپنے علاقے کا نام روشن کرنا چاہتا ہے۔
نصیر شیری کبڈی کے کھیل سے اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن اب بھی بطور ریفری کبڈی کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور کئی نوجوانوں کی کوچنگ بھی کر چکے ہیں۔
نصیر شیری "گول کبڈی" اور "کھلی کبڈی" کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اور 1995ء سے 2002ء تک ان کا کوئی توڑ نہیں تھا اور "کھلی کبڈی" میں منجھے ہوئے جاپھی ان کے سامنے آنے سے گھبراتے تھے یہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ڈاچ دے کر کھلاڑیوں سے آگے نکل جاتے تھے اور ان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن سمجھا جاتا تھا، میچ کی جیت کی خوشی میں ان کے چاہنے والے ان کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر جیت کا جشن مناتے تھے اور خوب ہلہ گلہ کیا کرتے تھے اور ان پر نوٹوں کی بارش کی جاتی تھی اور ان کے گھر پر مبارکباد دینے والوں کا سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہتا تھا۔
نصیر شیری کی خواہش ہے کہ ضلع چکوال میں اصل کبڈی کو بحال کیا جائے اور وہ بابائے ثقافت چوہدری تنویر آسی، استاد صوفی مظہر حسین، اناونسر قیصر محمود منگن اور کئی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔
نصیر شیری اس بات کی بھی خواہش رکھتے ہیں کہ ضلع چکوال میں نئے لڑکوں کو جن میں کبڈی کھیلنے کا جذبہ موجود ہے گھروں سے نکال کر گراؤنڈ تک لایا جائے اور ان کی کبڈی ٹیم بنائی جائے تاکہ اچھا کھیلنے والے لڑکے پاکستان کبڈی ٹیم میں شامل ہو کر ضلع چکوال کا نام اور اپنے پیارے ملک پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر سکیں۔
نصیر شیری سیاست سے بھی بڑی گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور ایم پی اے تنویر اسلم سیتھی، سابق ایم این اے ایاز امیر اور ایم این اے میجر طاہر اقبال کے ساتھ مل کر اپنے علاقے کے ترقیاتی کاموں میں حصہ لے چکے ہیں اور عوام کی خدمت کر چکے ہیں۔
بابائے ثقافت، ہردلعزیز اناونسر اور شاعر چوہدری تنویر آسی کے نصیر شیری کے بارے میں پنجابی زبان میں لکھے گئے چند خوبصورت اشعار آپ کی نظر.....
لہڑ سلطانپور چکوال دا رہن والا
سوہنے جسم دا سوہنا جوان شیری
اسدی محنت لے گئی اس نوں عروج اتے
جاپھی کر دتے سارے پریشان شیری
عقلمندی ہے حقیقت نوں من لینڑاں
حسد شیری تھیں کرن دی لوڑ کوئی نئیں
شیری ساہی چنگا آکھے عوام ساری
اسدے جتنی تے کسے دی دوڑ کوئی نئیں
بے شمار پنجاب وچ چنگے جاپھی
ایہہ ہے گل سچی اسدا جوڑ کوئی نئیں
کل پتہ نئیں تنویر کوئی ہںو جاوے
فی الحال تے شیری دا توڑ کوئی نئیں
نصیر شیری 1992ء سے 2002ء تک دس سال کبڈی کھیلے کئی میچزج میں کپتانی کی اور اپنے نام کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا اور کبڈی کھیلنے کے دوران دو ٹی وی سیٹ، ایک سونے کی انگوٹھی، تین سونے کے لاکٹ، کئی شیلڈز، کئی ٹرافیز اور لاکھوں روپے مالیت کے کیش پرائز بطور انعام حاصل کیے اور پاکستان میں جہاں جہاں بھی کبڈی کھیلی جاتی ہے ضلع چکوال کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہوئے۔
کوئی تبصرے نہیں