چکوال کے سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان، ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع، آر ٹی آئی کی رپورٹ میں ہولناک انکشاف

 


تحریر : ساجد بلوچ 

03335784782

sajidbaloch46@gmail.com


پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع چکوال میں یکم جنوری 2023 سے 25 ستمبر 2024 تک ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 647 افراد سر کی چوٹ (ہیڈ انجری) کا شکار ہوئے۔ ان حادثات میں سے 62 افراد موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے جبکہ 44 افراد دوران علاج دم توڑ گئے۔ مزید 413 افراد کو راولپنڈی کے مختلف ہسپتالوں میں ریفر کیا گیا، جہاں بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث کئی افراد جانبر نہ ہو سکے۔


یہ افسوسناک اعداد و شمار ضلع چکوال میں صحت کے شعبے کی ناقص صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں نیورولوجسٹ کی کمی اور دیگر بنیادی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ چکوال کے سرکاری ہسپتالوں میں جہاں صرف دو سی ٹی اسکین مشینیں موجود ہیں، نیورولوجسٹ کی سہولت سرے سے دستیاب ہی نہیں۔ یہ صورت حال اس لیے بھی سنگین ہے کہ چکوال جیسے ضلع میں ٹریفک حادثات خصوصاً پہاڑی علاقوں جیسے تحصیل کلرکہار اور چوآسیدن شاہ میں معمول کی بات ہیں۔ یہاں زخمیوں کو علاج کے لیے قریبی ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے لیکن نیورولوجسٹ نہ ہونے کے باعث انہیں بہتر طبی امداد فراہم نہیں کی جا سکتی۔


چکوال میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال، ایک ٹراما سنٹر، دو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، ایک سٹی ہسپتال، 13 رورل ہیلتھ سنٹرز اور 64 بنیادی ہیلتھ یونٹس موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر میں طبی سہولیات ناکافی ہیں اور اکثر مریضوں کو دوسرے شہروں میں ریفر کیا جاتا ہے جو زیادہ تر جانبر نہیں ہو پاتے۔


پنجاب حکومت کی جانب سے کلینک آن ویلز اور ائیر ایمبولینس پروگرامز جیسے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے، جن کا مقصد صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا ہے، لیکن چکوال میں بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی اب تک تشویشناک حد تک ناقص ہے۔ یہ اقدامات عوام کی نظروں میں کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ صحت کے شعبے میں بڑھتی ہوئی ناکامی عوام کو مایوسی کی طرف دھکیل رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے اعلانات محض کاغذی دعوے ہیں۔


نیورولوجسٹ کی عدم موجودگی چکوال کے عوام کے لیے ایک بڑا المیہ ہے خصوصاً ان حادثات کے تناظر میں جہاں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چکوال میں نیورولوجسٹ کی فوری ضرورت ہے تاکہ ان حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کو فوری علاج فراہم کیا جا سکے۔


عوامی نمائندے اور ضلعی انتظامیہ اس سنگین مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ عوام کی آواز بنیں اور اس معاملے کو اسمبلی فلور پر اٹھائیں۔ اگر اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو عوام کے جان و مال کا تحفظ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔


پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء کی بدولت یہ اعداد و شمار حاصل کیے جا سکے جو شفافیت اور معلومات تک رسائی کے قانون کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ عوام کو ان قوانین کے تحت حکومتی امور کے بارے میں درست اور مکمل معلومات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے مسائل کو اجاگر کر سکیں اور حکومت کو جوابدہ بنا سکیں۔


ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چکوال اور ٹراما سنٹر کلرکہار میں لاکھوں روپے مالیت کی سی ٹی اسکین مشینیں نصب کی گئی ہیں، لیکن ان کا مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے نیورولوجسٹ کی فوری تعیناتی ضروری ہے۔ خالی آسامیوں پر ماہر نیورولوجسٹ کی تعیناتی سے ہی سر کی چوٹ سے متاثرہ مریضوں کو بروقت اور مؤثر علاج فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے، چکوال کے عوامی نمائندے، بالخصوص چوہدری حیدر سلطان اور ملک تنویر اسلم، کو آگے آکر اپنی ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اہم مسئلے کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے۔


عوامی نمائندے ہونے کے ناطے، ان دونوں رہنماؤں کو اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر اسمبلی میں اٹھانا چاہیے تاکہ صحت کے شعبے میں درپیش چیلنجز کا فوری حل ممکن ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ضلع تلہ گنگ کے ہسپتالوں میں بھی سی ٹی اسکین مشینوں کے ساتھ نیورولوجسٹ کی تعیناتی کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ضلع بھر میں صحت کی سہولیات میں بہتری لائی جا سکے۔


*آخر میں...* چکوال کے عوام کو بہتر صحت کی سہولیات کی فراہمی اور نیورولوجسٹ کی تعیناتی جیسے اہم مسائل کو فوری حل کیا جانا چاہیے۔ عوامی نمائندے اگر اس اہم معاملے کو اسمبلی میں اٹھا کر حکومت کو جوابدہ نہیں بنائیں گے تو صحت کے یہ مسائل مزید سنگین ہوتے جائیں گے اور عوام کی زندگیوں کو بچانے کے امکانات کم ہوتے جائیں گے۔


یہ مسئلہ اس بات کا متقاضی ہے کہ فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ چکوال کے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات با آسانی میسر ہوں اور ان کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.