چکوال کا یونس اعوان


نبیل انور ڈھکو

مئی2010ء کی ایک گرم دوپہر کو میں ہاتھ میں اپنی ڈائری اٹھائے یونس اعوان کے دفتر پہنچا۔ اس سے پہلے نہ میں ان کو جانتا تھا اور نہ ان کے اخبارات کا نام سنا ہوا تھا۔ میں ڈان اخبار کے عشق میں ٹریفک وارڈن کی نوکری چھوڑ کر راولپنڈی سے چکوال آ گیا تھا۔ کالج کے زمانے اور پھر پولیس کی سروس کے دوران ڈان اخبار میں ایڈیٹر کے نام مسلسل خطوط لکھنے کی وجہ سے اخبار کے اس وقت کے نیوز ایڈیٹر فرمان علی صاحب نے مجھے خود چکوال میں ڈان کا نمائندہ مقرر ہونے کی پیشکش کی ۔میں نے بغیر سوچے یہ پیشکش قبول کرتے ہوئے سرکاری نوکری چھوڑ دی۔ میں چکوال میں کسی صحافی کو نہیں جانتا تھا۔ اپنے معلم پروفیسر سجاد حسین صاحب سے مشورہ لیا کہ میں کس صحافی کے پاس جاؤں کہ مجھے تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی لکھنے کے علاوہ صحافت کی الف ب کا بھی نہیں پتہ۔ سجاد صاحب نے مجھے یونس اعوان کے لڑ لگنے کو کہا۔ اگلے چند لمحوں میں میں یونس صاحب کے دفتر آ گیا اور انہیں اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ انہوں نے میری ڈائری دیکھی جو ڈان، دی نیوز، دی نیشن ،ڈیلی ٹائمز، پاکستان آبزرو اور ماہنامہ ہیرالڈ میں میرے شائع ہونے والے خطوط سے بھری ہوئی تھی۔ یونس صاحب نے میرے اس کام کی تعریف کی لیکن ساتھ خبردار بھی کیا کہ صحافت میں کوئی زیادہ پیسہ نہیں ہے اگر صحافت صحافت سمجھ کر کی جائے۔ بہتر ہے کہ ایک دفعہ سوچ لو۔ لیکن میں نے جب بتایا کہ مجھے فرمان صاحب نے کہا ہےکہ اگر تم محنت سے کام کرو گے تو ڈان اخبار تمیں مہینے کے اتنے پیسے دے دے گا جتنی تم حکومت سے بطور ٹریفک وارڈن تنخواہ لیتے ہو تو اس پر یونس صاحب نے کہا کہ کل سے دفترآنا شروع کر دو۔ مجھے یونس صاحب نے سکھایا کہ خبر کیسے ڈھونڈنی ہے، اس پر کام کیسے کرنا ہے، متعلقہ افسر سے بات کیسے کرنی ہے، خبر لکھنی کیسے ہے۔ 


مئی 2010 سے 29 اگست 2017 تک یونس صاحب کے ساتھ میری رفاقت قائم رہی۔ یونس صاحب خود تو تھے ہی ایک باکمال انسان ان کے دفتر میں مجھے علی خان، یسین چوہدری، ریاض بٹ، حاجی ظفر اقبال ساگر جیسے مخلص لوگ بھی ملے اور ان کی وجہ سے ہی دوسرے مقامی صحافیوں اور چکوال کی سر کردہ شخصیات سے تعارف ہوا۔ آج اگر مجھے چند لوگ ایک صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں تو میری اس پہچان اور مقام میں یونس اعوان کا کلیدی کردار ہے۔ 


یونس اعوان تین مقامی اخبارات کے چیف ایڈیٹر اور "روزنامہ دنیا" اور "دنیا نیوز" کے چکوال سے نمائندہ بھی تھے۔ ان کے دو اخبارات، ہفت روزہ "آثار" اور ہفت روزہ "چکوال پوائنٹ" تین عشروں تک چکوال کی مقامی صحافت کے اہم ستون رہے ہیں۔  

 میں جو خبر ڈان کے لیے لکھتا وہی یونس صاحب کے مقامی اخبارات کے لیے بھی لکھتا اور ان اخبارات میں کالم بھی لکھتا۔ مئی 2010 سے اگست 2017 تک سات سال کی اس مختصر رفاقت میں فقط چند دن ایسے ہونگے جب میں یونس صاحب سے نہ ملا ہوں۔ ہم ایک دفتر میں روزانہ چار سے پانچ گھنٹے اکٹھے گزارتے۔ دفتر میرے لیے ہی نہیں بلکہ عملے کے دوسرے افراد کے لیے بھی ایک گھر تھا۔ سات سالوں کی اس رفاقت میں میں نے یونس صاحب کو بہت قریب سے دیکھا۔ بحیثیت ایک انسان کے یونس صاحب میں بھی کئی بشری خامیاں ہونگی لیکن جس یونس اعوان کو میں جانتا ہوں وہ ایک پریکٹیکل لبرل، نڈر، پرعزم، پرجوش، جہاندیدہ، یاروں کا یار، پسے ہوئے طبقات کا سہارا، حکمران پارٹی کے سیاستدانوں اور ضلعی انتظامیہ کے افسران کے لیے ایک کانٹا، ایک سچا اور کھرا صحافی اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم باپ تھا۔ مقامی صحافت یونس صاحب کے دم سے قائم تھی۔ ان کے اخبارات صبح دس بجے قارئین کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔و یسے تو کسی مقامی اخبار میں آپ فقط چند سو روپے دے کر اپنی مرضی کی خبر لگوا سکتے ہیں اور چند سو دے کر کوئی خبر رکوا سکتے ہیں لیکن یونس صاحب کی شخصیت پر یہ آزمودہ نسخہ نہیں چلتا تھا۔ وہ خبر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے خواہ خبر ان کے اپنے کسی دوست کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی سیاسی معاملہ ہو، کوئی مذہبی منافرت کا مسئلہ ہو، کوئی شہری مسئلہ ہو، وہ مذہبی و سیاسی و ذاتی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر بطور صحافی اس مسئلے پر لکھتے۔ دوالمیال میں جب قادیانیوں کی عبادت گاہ پر دھاوا بولا گیا تو یونس صاحب کے اخبارات واحد اخبارات تھے جن میں اس حساس معاملے کی حقائق پر مبنی دلیرانہ رپورٹنگ کی گئی۔ وہ چکوال کے واحد صحافی تھے جنہوں نے صحافت کی خاطر جیل دیکھی۔ تین اخبارات کے مالک و ایڈیٹر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنے اخبارات میں اپنی خود نمائی ظاہر نہیں کی ورنہ وہ دوسروں کی طرح ایک شمارے میں اپنے سات سات فوٹو لگاسکتے تھے۔ لیکن انہیں خود نمائی پسند نہ تھی۔ وہ اخبارات کو عوام کی ملکیت سمجھتے تھے اور ہر عوامی مسئلے کو اجاگر کرنا اپنا فرض۔


نظریاتی لحاظ سے وہ ایک پریکٹیکل لبرل انسان تھے۔ یوں تو ہمارا معاشرہ خود ساختہ دیسی لبرلز سے بھرا ہوا ہے لیکن جب بات اپنے گھر یا اپنی ذات تک آئے تو اکثریت لبرلز کی لبرل ازم وہیں دم توڑ جاتی ہے اور اندر سے ایک بھیانک منافقت نکلتی ہے لیکن یونس صاحب گھر اور باہر ایک جیسے تھے۔ وہ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے تعلیم دے کر اپنی دونوں بچیوں کی آنکھیں خود کھولی ہیں اب میں فرسودہ روایات کو سامنے رکھ کر ان کی آنکھوں پر پابندیوں کی پٹی کیوں باندھوں۔ تعلیم نے ان میں اعتماد پیدا کیا ہے۔ وہ اپنا اچھا برا مجھ سے زیادہ بہتر سمجھ سکتی ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں پر بہت ناز کرتے تھے۔ ان کو اس بات کا رتی بھر بھی پچھتاوا نہیں تھا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں۔ ان کی بیٹیاں ان کے لیے بیٹوں سے بھی بڑھ کر تھیں۔ اور بیٹیوں نے بھی یہ ثابت کر کے دکھایا۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چکوال میں پڑھنے والی بچیاں "نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی" ( نسٹ) اسلام آباد اور "انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن" (آئی بی اے) کراچی جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے گزرتی ہوئی امریکہ کے تعلیمی اداروں تک پہنچیں۔ 


یونس صاحب نے معاشرے کے ان بچوں کی زندگی بدلنے کی ٹھانی جن سے ہم لوگ ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ ہمارے لیے وہ محض ’’چنگڑ" ہیں۔ جھگی سکول پراجیکٹ صحافت کے بعد ان کا دوسرا عشق تھا۔ چنگڑوں کے بچوں کوتعلیم دینا ان کا مشن تھا۔ پانچ بچوں کے اخراجات کا ذمہ ان کی بیٹی نے لیا جبکہ اس پراجیکٹ کو چلانے کے لیے ان کے تین چار دوستوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ میرے سامنے جھگی سکول پراجیکٹ کا حساب کتاب باقاعدگی سے لکھتے۔ ان کے اس عظیم کام کےخلاف ایک من گھڑت پراپیگنڈہ کیا گیا لیکن یونس صاحب کو دیکھیں کہ وہ اس پراپیگنڈے سے ٹس سے مس نہ ہوئے ۔میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں اس غلیظ پراپیگنڈے کا جواب دیتا ہوں لیکن ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا ۔انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے بہترین جواب اس کو بالکل نظر انداز کرنا ہے۔ پراپیگنڈہ کرنے والوں سے ہم اس سے زیادہ اور کیا توقع کرسکتے ہیں. یہ لوگ میرے خلاف نہیں بلکہ ان معصوم بچوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو اس معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہیں۔ 


29 اگست 2017 کو چکوال میں عمران خان کا جلسہ تھا۔ میں دوپہر کو گھر سے دفتر کے لیے نکلا۔ جیسے ہی دفتر میں قدم رکھا تو یونس اعوان نے ایک چاک و چوبند فوجی کی طرح کھڑے ہو کر مجھے سیلوٹ مارا۔ یہ ان کا انداز تھا۔ میں نے جان بوجھ کر تھوڑا سنجیدہ ہو کر انہیں تنگ کرنے کے لیےکہا کہ سر ہمیں عمران خان کے جلسے میں جانے کی کیا ضرورت ہے یہاں دفتر میں اے آر وائی لگا کے بیٹھ جائیں گے اور رپورٹنگ ہو جائے گی۔ ان کا جواب تھا کہ یار کمال کرتے ہو اتنا بڑا قومی لیڈر آ رہا ہے اور ہم اس اہم ایونٹ کو کور کرنے نہ جائیں۔ ہمیں ہر حال میں جانا چاہئے۔ ہم نے اس پر رپورٹنگ کرنی ہے اور کل تجزئیے بھی۔ یونس صاحب تھوڑی دیر کے لیے گھر چلے گئے کہ ان کا گھر بھی بھون روڈ پر واقع "چکوال پوائنٹ"کے دفتر کے قریب تھا۔ جب جلسے کا ٹائم ہوا تو میں نے یونس صاحب کو کال کی۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ جلسہ گاہ پہنچو میں بلکسر انٹرچینج سے عمران خان کی ریلی کا مشاہدہ کروں گا۔ اس طرح وہ اپنے دوست تعلیم خان کے ساتھ بلکسر انٹر چینج چلے گئے اور میں اور علی خان جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ موبائل سائلنٹ لگا کر ہم عمران خان کے جلسے کی کوریج میں مصروف ہو گئے۔ تحصیل چوک اور ون فائیو چوک سےشہر کی مرکزی شاہراہ ٹریفک کے لیے بند تھی۔ جلسہ ختم ہوا تو ہمیں پتہ چلا کہ یونس اعوان کو دل کا شدید دورہ اس وقت پڑا جب وہ جلسہ گاہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں اور علی خان دوڑ کر ڈسرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچے جہاں یونس صاحب زندگی کے 57 برس جینے کے بعد ابدی نیند سو چکے تھے۔


 بہت سے پاکستانیوں کی طرح ان کو بھی عمران خان میں ایک امید کی کرن نظر آئی تھی۔ اس دن وہ عمران خان کی آمد پر بہت خوش بلکہ جذباتی تھے۔ لیکن آج اگر وہ زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہے عمران خان کے ناقدین میں ہوتے۔ ان کی اچانک وفات سے چکوال کی مقامی صحافت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کہ ان کے جانے کے بعد آپ کو چکوال کا کوئی مقامی اخبار ایسا نہیں ملے گا جو صحیح معنوں میں صحافت کر رہا ہو۔ چکوال کی مقامی صحافت یونس اعوان کے دم سے زندہ تھی۔ وہ اگر چاہتا تو خوب مال بنا سکتا تھا لیکن پینتیس سال قبل موٹر سائیکل پر صحافتی سفر شروع کرنے والے یونس اعوان کے پاس 29 اگست 2017 کو بھی ایک موٹر سائیکل ہی تھا۔ 


ان کے جانے کے بعد ان کے اخبارات تو باقاعدگی سے نہ چل سکے لیکن ان کی شریکِ حیات فریدہ یونس نے ان کا جھگی سکول پراجیکٹ خوب سنبھالا جو آج بھی معاشرے کے دھتکارے ہوئے بچوں کو مفت تعلیم دے رہا ہے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.