برج الٹیں گے؟؟؟؟

محمد اکرم چوہدری

آٹھ فروری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں، امیدواروں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں، نمایاں سیاسی شخصیات کا کیرئیر داو پر لگا ہوا ہے۔ کیونکہ آج سیاسی جماعتوں میں وہ چیز نظر نہیں آتی جو کبھی عام انتخابات میں ہوتی تھی۔ آج سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ جو دوڑیں آج دیکھنے کو مل رہی ہیں ان میں شدت آٹھ فروری کو ہو گی۔ ہارنا کوئی چاہتا نہیں، ہارنے کا حوصلہ بھی کسی میں نہیں اور ہارنے کے بعد لگ بھگ پانچ سال تک اقتدار کے ایوانوں سے دور رہنے کا خطرہ کوئی مول لینے کو تیار نہیں ہے۔ سب دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں، ہر کسی سے مدد کی درخواست کر رہے ہیں، ناراض ووٹرز کو منانے کی کوششیں جاری ہیں۔ جس میں جتنی طاقت ہو گی اتنا ہی اس کی کامیابی کے امکانات بڑھیں گے، کون طاقت کا بہتر استعمال کرتا ہے، کون طاقت کا بروقت استعمال کرتا ہے، کون کمزور سے طاقتور سب کو راضی کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اس کی مشکلات آسانی میں تبدیل ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ یہ بات طے ہے کہ عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر دھاندلی کا شور بلند ہو گا، الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا اور ایسا ہونا کچھ نیا نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان میں ہر عام انتخابات کے بعد آئندہ عام انتخابات تک یہی شور سنائی دیتا ہے۔ بہت سے نمایاں سیاست دانوں کو مشکلات ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ عمومی طور پر عام انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہیں تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ "برج الٹ گئے" تو اس مرتبہ بھی یہ سننے کو ضرور ملے گا، کون الٹتا ہے یا لٹکتا ہے اس کا فیصلہ ہونے میں کچھ زیادہ دن باقی نہیں ہیں۔ 

این اے 154 میں گذشتہ عام انتخابات میں عبدالرحمٰن کانجو سب سے زیادہ مضبوط امیدوار ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں بھی عبدالرحمٰن کانجو جیت گئے تھے۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ عبدالرحمٰن کانجو کامیاب ہوتے ہیں اس کا مطلب ہو گا کہ این اے 154 میں بھی مسلم لیگ ن ہی کامیاب ہو گی۔ یہاں ایک سیاست دان فراز نون بھی خاصے متحرک اور مقبول ہیں لیکن عبدالرحمٰن کانجو کے مقابلے میں ان کی پوزیشن زیادہ اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ این اے 155 میں بڑا مقابلہ جہانگیر خان ترین اور صدیق بلوچ آمنے سامنے ہیں۔ اس حلقے پر سب کی نظریں ہیں، ابتدا میں یہ سنا جاتا رہا کہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن جہانگیر خان ترین کے مقابلے کوئی امیدوار نہیں لائے گی لیکن مسلم لیگ ن کے مقامی سیاسی رہنما اس خیال سے متفق نہیں تھے۔ صدیق بلوچ کی سیاسی اہمیت کم نہیں ہے اور وہ کسی بھی مخالف کے لیے بہت ہی مشکل سیاسی حریف ہیں۔ ان کا اپنا سیاسی پس منظر اور علاقے میں اپنی سیاسی اہمیت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لودھراں میں مسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت نے میاں نواذ شریف سے ملاقات کر کے یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر صدیق بلوچ کو این اے 154 سے پارٹی ٹکٹ نہ دیا گیا تو یہاں کی قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی چار سیٹوں پر صدیق بلوچ گروپ آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں نظر آئے گا۔ لودھراں میں ن لیگ کی مقامی قیادت کے سخت موقف کے بعد میاں نواز شریف نے صدیق بلوچ اور عبدالرحمٰن کانجو سمیت دیگر افراد کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے لودھراں میں مقامی قیادت کی حمایت کے ساتھ انتخابات میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں قومی اسمبلی کے یہ دونوں حلقے بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ 

جہانگیر ترین کے لیے یہاں سے جیتنا آسان نہیں ہے۔ اس وقت تک جو اطلاعات مل رہی ہیں ان کے مطابق صدیق بلوچ جے کے ٹی کو حیران کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ مجموعی طور پر یہاں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہے آٹھ فروری کو کیا ہوتا ہے کون وقت، طاقت، تعلقات اور سرمائے کا بہترین استعمال کرتا ہے اسے اہم وقت میں فائدہ ضرور ہو سکتا ہے۔

جہاں تک تعلق اس سیاسی میدان کا ہے بہت سے آزاد امیدوار پہلے سے طے کر چکے ہیں کہ کامیابی کے بعد کس سیاسی جماعت کا حصہ بنیں گے، تمام بڑی سیاسی جماعتیں بھی آزاد امیدواروں کا انتظار کریں گی۔ ان کے لیے دروازے کھلے ہوں گے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ آزاد امیدوار آزاد ہیں ایسا بالکل نہیں حقیقت اس سے بہت مختلف ہے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں نے کہیں نہ کہیں قید ضرور ہونا ہے، یا کسی سیاسی پنجرے میں بند ہونا ہے۔ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ 

آخر میں سلیم کوثر کا کلام

وہی ہے جو دْکھ بھرے موسم کی ویرانی میں 

سینوں پر دَھنک لمحوں کی خْوشبْو سے 

مہکتا ہاتھ رکھتا ہے

دِلوں کو جوڑتا ہے اور پھر 

اْن میں محبت نام کی سوغات رکھتا ہے 

سفر میں راستے گم ہوں 

رِدائے گمرھی کتنی ہی میلی ہو 

غموں کی دْھوپ پھیلی ہو

اْسے کوئی کہیں جِس وقت 

اور جس حال میں آواز دیتا ہے 

وہ سْنتا ھے

بہت ہی مہربان ہے رحم کرتا ہے

وہی سچ ہے ہمیں سچ بولنے کا حْکم دیتا ہے

سو اْس کو یاد کرتے ہیں

اْسی کے نام سے آغاز کرتے ہیں

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.