8 فروری، عوامی عدالت:عوام یا خواص کا؟ ڈاکٹر مجاہد

ڈاکٹر مجاہد منصوری

اگرچہ تمام تجزیہ نگار مکمل بے نقاب وجوہات کے باعث اسے پاکستانی تاریخ کا سب سے متنازع ہوتا الیکشن قرار دے رہے ہیں یقینا آپ کو اس سوال پر اپنی رائے کی تشکیل کے لئے کسی تجزیہ نگار یا سیاسی رہنما کی رہنمائی کی ضرورت نہیں سب کچھ آپ کے سامنے ہے عوام یقیناً زیر بحث سوال پر اپنی رائے (پاکستان عوام کا ) بنا چکے ہیں جو 8فروری کو لگی عدالت میں دیئے گئے فیصلے کے میرٹ (ووٹ) کی بنیاد ہو گی بس امکانی تابناک پاکستان اس تاریخ ساز الیکشن میں انتہائی عاجزی و انکساری سے التجا کرتا ہے کہ اس مرتبہ ووٹ کسی مخصوص خاندان اپنی برادری، پارٹی اور علاقے و زبان کو نہیں مجھے (پاکستان) کو دو یہ آپ سب کی پہچان آپ کے تشخص آپ کی پناہ گاہ، تحفظ آل اولاد اور آنے والی نسلوں کے فوری اور دوررس مفادات کا معاملہ ہے۔


آپ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ اس تاریخی لمحے میں قوت ،اخوت عوام کہاں مرتکز ہے اور کتنی مشکلات سے دوچار ہے آپ کا ووٹ معاشی و سیاسی عدم استحکام میں گھرے جکڑے پاکستان کو زور لگا کر نکالنے اور ہر صورت اسے قوت اخوت عوام کا فلاحی کرپشن فری اور مکمل عوام دوست پاکستان کی یقینی تشکیل کے لئے ہونا چاہئے اس کی ایک ہی راہ ہے بار بار کے تجربات نے یہ ہی ثابت کیا ہے کہ جو جو الیکشن جتنا ماورا آئین و قانون ہوا اس کے نتائج عوامی مفادات کے خلاف اتنے ہی زیادہ نکلے، اور خواص اتنے ہی مالا مال اور با اختیار ہوئے اب یہ بحث بھی لغو ہو گئی کہ اس کے ذمے دار نااہل اور کرپٹ سیاست دان نہیں ماورا آئین اقدامات کی عادی اسٹیبلشمنٹ ہے یا فوجی آمرانہ ادوار کے مواقع سیاست دانوں کی آلودگی سے پیدا ہوئے جس طرح اسٹیٹس کو کی جماعتوں نے آئین کی مکمل عملداری سے گریزاں دو قانونی (خواص کے لئے کچھ اور عوام کے لئے رائج الوقت) نظام بدعشروں سے چلا آ رہا ہے اس طرح سات عشروں سے پاکستان میں نحیف و نااہل ،متنازعہ اور کرپٹ موروثی سیاسی ادوار اور خلاف آئین ملٹری رجیمز کی حکومتی باریاں لگی ہوئی ہیں اقتدار و اختیار سے اگر کوئی دور رہا تو ووہ عوام الناس جنہیں دانستہ قوت اخوت عوام میں تبدیل ہونے ہی نہیں دیا گیا سیاسی جماعتوں پر بھی اسٹیبلشمنٹ کے دھڑے سے سیاسی خاندانوں اور قائدین کا غلبہ ہی رہا کارکنوں کو سیاسی نظام کی عملداری میں حصہ نہ ہونے کے برابر رہا ۔ آئین پاکستان نے اس سیاسی ذہنیت کے تدارک اور سیاسی عمل کو رواں دواں اور رکھنے اور اس میں عوام کی برابر شرکت کو یقینی اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے لوکل گورنمنٹ سسٹم (بلدیاتی ادارے) کا جو آئینی لازمہ رکھا اس پر سیاسی جماعتوں نے پردہ ہی ڈ الے رکھا اور اسے دبا کر رکھا ان کی گنجائش ملٹری رجیمز میں نکلتی رہی تو شہری اور روز مرہ بنیادی سہولتوں کے حوالےسے عوام کے اطمینان کی بڑ ی صورت بنتی رہی یوں عسکری راج کو اقتدار کی طوالت کے لئے مضبوط بیساکیاں ’’کنگ پارٹی ‘‘ کے علاوہ عوام الناس کی سطح پر بھی میسر رہیں پہلی مرتبہ ایک مضبوط اور ارتقائی بلدیاتی نظام کی گنجائش کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاسی اٹھان سے پیدا ہوئی جس نے ڈیلیور بھی کیا لیکن اسے پارٹی کےاندرونی پرتشدد اختلاف اور برسوں پر محیط شہر پر مسلط بدترین فسطائیت نے ثبوتاژ کر دیا اس کے بعد تحریک انصاف نے اپنے پہلے صوبائی اقتدار میں خودمختار اور عوام دوست ارتقاپذیر بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی اس کے بہت سے عوام کو ریلیف سامنے آئے لیکن متوازی صوبائی خٹک وزارت میں کرپشن اور کنبہ پروری کی ملاوٹ نے اس کے ارتقا میں بڑی رکاوٹیں خود کھڑی کیں آج بھی مسلم لیگ ن کے منشور جس کے انقلابی اور عوام کے لئے بڑے ثمرآور پیکیج کی بازگشت لندن سے سنائی دینے لگی جب قوم کو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے جذبے سے سرشار ایک بڑے عوام دوست پیکیج کے ساتھ اپنے رہبر کی واپس پاکستان آمد کا باربار یقین دلایا جاتا رہا وہ آئےتو کوئی پیکیج ویکج ان کے پاس نہ تھا وہ عالیشان ایئر پورٹ پروٹوکول لیکر مینار پاکستان پہنچے تو موجود مہنگے اور اپنے 2013کے دور کی قیمتوں کے موازنے اور کبوتر اڑا کر امن کا پیغام دینے کے سوا کچھ بھی توان کے پاس نہ تھا عوام کو فلاحی پیکیج تو کیا اب اپنے بڑے زوروشور سے پیش منشور میں پھر عوامی نمائندگی و شرکت اقتدار کی آئینی ضرورت رواں دواں اورسرگرم مطلوب بلدیاتی نظام سے ہاتھ کر گئے جن ترجیحات کی نشاندہی اخبارات کے صفحہ ہائے اول پر بڑے اشتہارات میں کی گی اس میں ایمپاورڈ لوکل گورنمنٹس کی کوئی ترجیح نظر نہیں آیا گو یا اسٹیٹس کو اور مضبوط ہوا جبکہ پی پی نے جس طرح کراچی کی میئر شپ ہتھیائی لوکل گونمنٹ سسٹم بارے ان کے ذہن کا پردہ بھی چاک ہوگیا رہی تحریک انصاف سچی بات تو یہ ہے اس پر ٹوٹی نگرانی فسطائیت کی قیامت میں تو زیر عتاب بکھیر دی گئی پارٹی کا ملک بھر سے امیدوار میدان میں اتار دینا بلا چھننے کے بعد اور کئی رکاوٹوں میں کاغذات نامزدگی جمع کرا دینا ہی بڑا سیاسی کارنامہ ہے ۔ایسے ماحول میں کہ ان کا بند کمروں میں ا جلاس کرنا بھی خطرات سے خالی نہ تھا منشور پیش کا دینا ہی بڑی ہمت ہے ویسے بھی منشور کی حیثیت بالکل ثانوی ہو گئی ہے جس اضطراب دبائو اور دھڑکنوں بھری جدوجہد میں انتخابات ہو رہے ہیں اس میں تحریک انصاف کے ووٹرز کا پہلا ہدف الیکشن میں اپنے حق کا حصول اور ووٹ کی عزت کی رکھوالی بڑا چیلنج بن گیا ہے بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن پچھلی فہرستوں کے مقابل رہائشی علاقوں سے دور دور تک مقررکر دیئے گئے جہاں تک پہنچنا اور پہنچانا بڑا چیلنج ہے۔ تاہم تحریک انصاف جو گزشتہ ہفتے دس روز میں ملکی عدالتی نظام کے تشویشناک حد تک غیر پیشہ ورانہ معیار سے مایوسی میں ڈوبی ہو ئی ہے کے لئے یہ محتاط تجزیہ شاید باعث حوصلہ ہو کہ ان کے ووٹ بینک میں ایک بڑے فیصد کا اضافہ ان ہی ایام میں ہوا ہے انہیں ہی کیا ہر ووٹر کو پاکستان کی تشکیل نو کے آغاز کو یقینی بنانے کے لئے اپنے حق ووٹ کے استعمال کو یقینی بنانا ہے ان کی رائے بہت محترم و مقدم ہے کہ کون اس کار عظیم کے لئے ان کے ووٹ کا حق دار ہے ۔یہ پاکستان کے استحکام اور مایوس ،مفلوک مغلوب اور جملہ مصائب میں جکڑے بے بس عوام کو قوت اخوت عوام میں تبدیل کرنے کا اہم ترین فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہر ووٹر پر عائد ناگزیز قومی فریضہ ہے وماعلینا الالبلاغ

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.