خالد سجاد کھوکھر ہاکی فیڈریشن کی جان چھوڑ دیں!!!!!

محمد اکرم چوہدری

میں نے سوچا کہ آج براہ راست پاکستان کی سیاست پر لکھنے کے بجائے ذرا قومی کھیل کی خبر لیتے ہیں۔ ویسے تو جو حال قوم کے حکمرانوں کا ہے وہی حال قومی کھیل کا ہے، جو چیز بھی حکمرانوں کے ذمے ہوتی ہے اس کا حال برا نہیں بلکہ بہت ہی ہوتا ہے۔ یہی حال قومی کھیل کا ہے گوکہ یہاں براہ راست سیاست نہیں ہوتی لیکن سیاسی حکمران مختلف فیڈریشنز میں اپنے من پسند لوگوں کو نوازتے ہیں۔ اب وہ اہل ہوں یا نہ ہوں، کام کریں یا نہ کریں پھر وہ عہدے سے چمٹے رہتے ہیں۔ یہی حال پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سابق صدر خالد سجاد کھوکھر کا بھی ہے۔ موصوف لگ بھگ آٹھ سال تک پاکستان کے قومی کھیل کی فیڈریشن کے صدر رہے اس دوران انہوں نے دل کھول کر سیکرٹری جنرل بدلے لیکن خود ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پاکستان کی ہاکی کو پوچھنے والا کوئی نہیں، دنیا میں ہمارا نام کوئی نہیں لیتا لیکن خالد سجاد کھوکھر کا کرسی چھوڑنے کا دل نہیں کرتا۔ اپنی صدارت کے دوران شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں پاکستان ٹیم کھیلنے گئی ہو اور خالد سجاد کھوکھر وہاں نظر نہ آئے ہوں۔ قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے زوال کا شکار رہی لیکن خالد سجاد کھوکھر فضاؤں میں رہے۔ انہوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کو پرسنل ہاکی فیڈریشن بنایا آج بھی ان کے قریبی عزیز پاکستان ہاکی فیڈریشن میں مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ اتنے شاید آٹھ برسوں میں ہاکی فیڈریشن کھلاڑی نہیں بنا سکی جتنے انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو فیڈریشن میں نوکریاں یا اہم عہدے دئے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پی ایچ ایف ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے لیکن خالد سجاد کھوکھر کا دل نہیں کرتا کہ وہ بدترین ناکامی کے باوجود بھی اس کرسی کو چھوڑیں۔ نگران حکومت نے خالد سجاد کھوکھر کی جگہ میر طارق بگٹی کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر مقرر کیا ہے تو سابق صدر سے یہ ہضم نہیں ہو رہا پہلے انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی اس کے بعد اپنی برطرفی کو عدالت لے گئے ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے برطرف صدر خالد سجاد کھوکھر کی درخواست پرنوٹس جاری کیا جس میں درخواست گزار نے اپنی جگہ طارق بگٹی کوپاکستان ہاکی فیڈریشن کا ایڈہاک صدر بنانے کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے وزیراعظم کو نوٹس بطور پاکستان ہاکی فیڈریشن پیٹرن انچیف جاری کرتے ہوئے آئندہ ہفتے تک جواب طلب کیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق وزیراعظم نے اکیس دسمبر 2023 ء کو طارق بگٹی کو ہاکی فیڈریشن کا صدر مقرر کیا جب کہ پٹیشنر اٹھارہ اگست 2022 ء کو چار سال کی مدت کے لیے ہاکی فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے، پٹیشنر کے مطابق پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر کی چار سالہ مدت مکمل ہونے پر آئندہ الیکشن 2026 ء میں ہوں گے، پٹیشنر کے وکیل نے کہا ہاکی فیڈریشن کے پیٹرن انچیف کے پاس صدر کو ہٹا کر کسی اور کو عہدہ دینے کا اختیار نہیں۔

اس پٹیشن میں خالد سجاد کھوکھر کو یہ تکلیف تو ہو رہی ہے کہ انہیں چار سال کے لیے صدر منتخب کیا گیا تھا لیکن حکومت نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ نگران حکومت کی طرف سے طارق بگٹی کی تقرری اور خالد سجاد کھوکھر کی اس دکھ بھری پٹیشن کے آئینی اور قانونی نکات کچھ بھی ہوں یقینا معزز عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے گی لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ خالد سجاد کھوکھر کو ایسی ہی تکلیف پاکستان ہاکی تباہ ہونے پر کیوں نہیں ہوئی، وہ ایک مخصوص وقت تک کسی ایک شخص کو اپنا سیکرٹری جنرل بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے اسے فارغ کرتے ہیں کیا یہ عین آئینی و قانونی ہے، کیا آئیں میں لکھا گیا ہے کہ قومی کھیل کی مکمل تباہی  تک خالد سجاد کھوکھر عہدے پر رہیں گے، کیا آئین اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر دورے پر خود جائیں اور ہاکی فیڈریشن کے ملازمین کو تنخواہیں بھی نہ ملیں، کھلاڑیوں کو ڈیلی الاؤنس نہ مل رہا ہو، کھیل تباہ ہوتا رہے لیکن خالد سجاد کھوکھر کو عہدے سے نہ ہٹایا جائے اصولی طور پر تو جن لوگوں نے انہیں چار سال کے لیے صدر منتخب کیا ہے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے اور سابق کھلاڑیوں کا ایک مخصوص ٹولہ یا گروہ جو قومی کھیل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے ان کے حوالے سے بھی سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ تباہی پر شرمندگی کے بجائے اس مفاد پرست ٹولے نے عدالت کا راستہ اختیار کیا ہے کسی مہذب ملک میں ہوتے تو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتے ذرا باہر نکلیں اور لوگوں سے پوچھیں کہ گذشتہ آٹھ برس میں قومی کھیل کو جاری ہونے والے فنڈز کو کیسے استعمال کیا ہے ہاکی دو ہزار پندرہ میں کہاں تھی اور ہاکی دو ہزار چوبیس میں کہاں ہے۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں کیوں تھوڑے سے ذاتی فائدے کے لیے ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ معزز عدالت کے سامنے اس ناکام صدر کی آٹھ سالہ کارکردگی پیش کرے، کتنے پیسے جاری ہوئے کب کہاں اور کیسے خرچ ہوئے، انہوں نے آٹھ برس میں خود آئین کو کیسے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا، کیسے کھیل کو تباہ کیا، کیسے کھلاڑیوں کے ساتھ ظلم کیا تفصیلات عدالت کے سامنے کے پیش کریں، حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وزارت اطلاعات کے ذریعے یہ تمام تفصیلات عوام کے سامنے بھی رکھے۔ جن لوگوں کو یہ ناکام صدر ہتھکڑیاں لگوانے کی بات کرتا رہا ضرورت پڑنے پر انہیں عہدے بھی دیے، کرسی بچانے کے لیے آئین و قانون کا سہارا لینے والے خالد سجاد کھوکھر بتائیں کہ کیا وہ اس عہدے پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز رکھتے ہیں؟؟؟

ہاکی اولمیئنز کو بھی کچھ خیال کرنا چاہیے جس کھیل نے انہیں نام، مقام، عزت، شہرت، دولت، آسائش سمیت زندگی کی تمام سہولیات دی ہیں اس کھیل سے کس چیز کا بدلہ لے رہے ہیں کیا یہ قومی کھیل کے بہتر مستقبل کے لیے اس کھیل کی جان نہیں چھوڑ سکتے۔

آخر میں حفیظ ہوشیار پوری کا کلام

محبت  کرنے  والے  کم  نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک

شریک   گری شبنم   نہ   ہوں   گے

ذرا    دیر    آشنا   چشم    کرم    ہے

ستم  ہی  عشق میں پیہم نہ ہوں گے

دلوں  کی الجھنیں بڑھتی  رہیں  گی

اگر   کچھ   مشورے  باہم  نہ ہوں گے

زمانے  بھر   کے   غم   یا  اک  ترا  غم

یہ  غم  ہو گا  تو  کتنے  غم نہ ہوں گے

کہوں  بے  درد  کیوں  اہل جہاں کو

وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے

ہمارے  دل  میں  سیل  گریہ  ہو گا

اگر   با  دید پرنم   نہ   ہوں   گے

اگر    تو   اتفاقاً   مل    بھی   جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

حفیظ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں

وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.