الیکشن کے بعد؟

ایس اے زاہد

ہر طرف الیکشن کا شور ہے۔ کسی کے کاغذات نامزدگی منظور اور کسی کے مسترد ہوئے۔لیکن یہ معاملہ بھی ایک ہفتے بعد فائنل ہوگا۔کیونکہ آخری فیصلے الیکشن ٹریبونلزکو کرنے ہیں۔ امکان ہے کہ مختصر تعداد میں مسترد کئے گئے کاغذات منظور کیے جائیں گے۔ مسترد کاغذات میں زیادہ تعداد پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران کی ہے جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کے خلاف ٹھوس مقدمات ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی وغیرہ کے امیدواران کے کاغذات بھی مسترد ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور اس جماعت کو الیکشن کی دوڑ سے باہر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن کا موقف بڑا واضح ہے کہ پی ٹی آئی ہویا کوئی بھی جماعت ، سب کے ساتھ برا بر کا سلوک قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔


ہم نے گزشتہ ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ سال2024بہت مشکل سال نظر آرہا ہے۔ غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے جو علیم اور خبیر ہے۔ علم الاعداد امکانات اور اشاروں کا علم ہے حتمی فیصلے تو اللہ کریم ہی کرتا ہے۔ ہم نےکالم میں سال2024کے بارے میں عرض کیا تھا کہ یہ سال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کیلئے مشکل سال ہوسکتا ہے۔ جہاں تک ملک میں الیکشن کا معاملہ ہے اس کے انعقاد کے لئے ہر سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ الیکشن ہوبھی جائیں لیکن اس کے بعد کے حالات شاید مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث بن جائیں۔ ابھی سے بعض معاملات متنازعہ ہوگئے ہیں ان تنازعات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ نظر آرہا ہے۔ یہ بات یادرہے کہ یہ2018 نہیں بلکہ سال 2024ہے۔ وقت اور حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ تاثر بھی ٹھیک نہیں ہے کہ کسی کو اقتدار دلانے کیلئے کسی کو دیوار سے لگایا جارہا ہے یہ تو الیکشن کے نتائج سے معلوم ہوگا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ 2018میں مسلم لیگ(ن) کے بعض قائدین اور امیدواران کے خلاف ایسے مقدمات نہیں تھے جواس وقت پی ٹی آئی کے قائدین اور امیدواروںکیخلاف ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے نہ تو فوجی تنصیبات پر حملے کئے تھے نہ ہی شہدا کے یادگاروں کی بے حرمتی کی تھی جوکہ کھلی دہشت گردی اور ریاست مخالف اقدامات ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے یا اس جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔ بلکہ قوم تو حیران ہے کہ جن پر اس طرح کے سنگین الزامات اور مقدمات ہیں ابھی تک ان کو بمطابق جرم سزائیں کیوں نہیں سنائی گئیں۔جتنا ریلیف پی ٹی آئی کو دیا جارہا ہے قوم کیلئے یہ بھی باعث حیرت ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی کا واویلا الٹا چور کو توال کو ڈانٹےکے مترادف ہے جہاں تک مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا تعلق ہے تو ان میں سے کسی کے پاس بھی ایسا کوئی نسخہ نہیں ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کے معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے، مہنگائی ختم ہوجائے گی، روزگار میسر ہوجائے گا،کاروبار چل پڑیں گے اور ملک میں خوشحالی آجائے گی۔ ہرایک کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا ہے اس کے بعد کیا ہوگا وہ دیکھا جائے گا اور ظاہر ہے بھگتنا تو عوام کو ہے جو ان جلسوں میں جھنڈے لہراتے اور نعرے لگاتے ہیں، الیکشن کے دن ووٹ دینے کیلئے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں چاہے گرمی ہویا سردی۔ حالانکہ ان سب جماعتوں کوعوام کئی بار آزماچکےہیں۔ پی ٹی آئی کا دور بھی دیکھ لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے بعد از اقتدار جس طرح ملک کے دفاعی اور قوم کے محافظ اداروں پرحملے کئےوہ بھی عوام دیکھ چکے ہیں توپھر بھی ان جماعتوں سے قوم کو اگر امید یں ہیںتو کیا کہا جاسکتا ہے ۔بہرحال الیکشن جمہوریت کا اہم حصہ ہیں لیکن کیا ان جمہوری جماعتوں میں جمہوریت ہے۔ یہ جمہوری نہیں وراثتی جماعتیں ہیں تو سوچنے والی بات ہے کہ جب جمہوریت کے دعویداروں میں جمہوریت نہیں ہے تو پھر جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنا عوام کو بیوقوف بنانا نہیں تو اور کیا ہے۔


موجودہ جمہوریت اور جماعتیں نہ تو ملک میں وہ مقام رکھتی ہیں نہ ہی ان کے پاس کوئی قابل عمل فارمولا ہے کہ ان میں سے کسی کے برسراقتدار آنے سے ملکی معاشی اور امن وامان کے حالات میں بہتری آسکے گی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور ان کے رفقا جس طرح دن رات ملکی معیشت کی بہتری کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں ماضی میں تو کیا مستقبل میں بھی اس کی شاید ہی کوئی مثال سامنے آسکے۔ وہ بیرونی ممالک سے رابطوں کے ساتھ ساتھ ملک میں زراعت کی ترقی اور معدنیات سے ملکی معاشی بہتری کیلئے کوشاں ہیں جب کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر بھی چل رہی ہے اس عفریت کا مقابلہ بھی کیا جارہا ہے۔ بعض شرپسندوں کی طرف سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور منفی پروپیگنڈہ بھی کیا جارہا ہے۔ ملکی سرحدوں پربھی نظر رکھی جارہی ہے توقوم کوسوچنا چاہیے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور ان کے ساتھی ملک وقوم کی بہتری کیلئے کتنے محاذوں پرلڑ رہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان نامساعد حالات میں قوم پاک آرمی کے ساتھ ہے اور ان کوششوں کی معترف ہے۔ الیکشن کی دوڑ میں شامل جماعتوں میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے کہ وہ اکثریت بھی حاصل کرسکے ۔ کئی لوگوں کی تو ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔ اگر الیکشن ہوئے بھی توچوں چوں کی سادہ مربہ والی حکومت بنے گی جو چھ ماہ سے زیادہ چلتی نظر نہیں آتی۔ بس قوم کا اربوں روپیہ ضائع ہوگا اور حالات مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہےاور اس کے بعد نظام کی تبدیلی ہی آخری حل ہوگا۔ دیکھتے رہیں اور انتظارکریں۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.