ظالم سیاست اور پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل سرکار!!!!!

محمد اکرم چوہدری 

سیاست بہت ظالم ہے، سیاسی کھیل میں نجانے کتنے ہی رشتے، دوست اور تعلق قربان ہوئے ہیں، میں نے تو اس ملک میں سیاست دانوں کے غلط فیصلوں سے ملک کو بھی شدید نقصان پہنچتے دیکھا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سیاسی میدان میں کامیابی بھی ملتی ہے اور ناکامی بھی حصے آتی ہے لیکن پاکستان میں سیاست دان آگے بڑھنے، اقتدار کے ایوانوں تک جانے کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں۔ شاید سیاسی کھلاڑیوں کے لیے رشتے، تعلق اور دوستیاں اہمیت نہیں رکھتیں یہی وجہ ہے کہ حصول اقتدار کی جنگ میں اکثریت سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جب اقتدار کے لیے کوئی ایک شخص اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ یہ باتیں لکھنے کی وجہ چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے چوہدری شجاعت حسین کے بیٹوں پر الزام لگایا ہے۔ مونس الٰہی لکھتے ہیں کہ "چوہدری شجاعت حسین صاحب کے بیٹوں نے اپنی پھوپھیوں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے ہی آبائی خاندانی گھر پولیس بھیجی۔" اس کا جواب چوہدری سالک حسین نے کچھ اس انداز میں دیا۔

"کیا آپ نے میڈیا رپورٹنگ کا پیشہ بھی اختیار کر لیا ہے؟ اگر نہیں تو خبر کی تصدیق کر لو۔ اس واقعے کے بارے میں مجھے تب معلوم ہوا جب کسی نے یہ ٹویٹ مجھے بھیجی۔خاندان کی عزت پی ٹی آئی کے ووٹوں کے لیے مت رولو، عوام حقیقت جانتی ہے۔ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہیں۔ ان کی ویڈیوز دیکھ کر دل رنجیدہ ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کروانے امیدوار کا جانا ضروری نہیں۔آپ کے پاس وکلا کی فوج موجود ہے انہیں بھیج دیا ہوتا۔برائے مہربانی گجرات میں عورت کارڈ نہ چلایا جائے۔چلو شکر ہے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ یہ ہمارا بھی آبائی گھر ہے لہذا وہاں ہمارے آنے پر جو کمروں کو تالے لگ جاتے ہیں انہیں بھی کھلوا دو۔ پورا پاکستان یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ آپ خود کہتے تھے سیاست اپنی اپنی۔ سیاست کرو ذاتی عناد اور بے بنیاد الزامات مت لگاؤ۔دعا ہے اللہ آپ کو صبر دے اور چودھری پرویز الہی صاحب کی مشکلات میں کمی آئے۔"

میں نے برسوں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو ساتھ ساتھ دیکھا ہے، انہیں ہمیشہ اکٹھے دیکھا اور ان دونوں میں محبت اور احترام کا جو رشتہ تھا لوگ اس کہ مثالیں دیتے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین کو فیصلوں کا اختیار تھا جو وہ کہتے تھے وہی ہوتا تھا، سیاسی حلقوں میں تاثر تھا کہ "وڈے چوہدری صاحب" جو فیصلہ کرتے ہیں چوہدری پرویز الٰہی اس سے آگے پیچھے نہیں ہوتے، ان دونوں کا ساتھ دیکھنے کی اتنی عادت ہو چکی کہ اب دونوں کے الگ الگ سیاسی بیانات سامنے آتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اتنے گہرے مضبوط رشتے، تعلق اور دوستی کو جب سیاست کھا سکتی ہے تو پھر اس بیرحم کھیل میں کچھ بھی بچنا مشکل ہے۔ وہ برسوں لوگ کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے بھاری سرمایہ خرچ کرتے ہیں، دن رات ایک کرتے ہیں، اپنے قائد کو منزل تک پہنچانے کے لیے دشمنیاں مول لیتے ہیں لیکن جب قائد محترم منزل پر پہنچتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے محسنوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ ایسا تو ہم نے ماضی قریب میں بھی بہت دیکھا ہے۔ چوہدری برادران لے حوالے سے دکھ اس وقت بھی ہوا تھا جب چوہدری پرویز الٰہی نے الگ سیاسی راستہ اختیار کیا اور پاکستان تحریک انصاف کو پیارے ہو گئے اب مونس الٰہی اور سالک حسین آمنے سامنے آئے ہیں دکھ میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ دونوں میں لفظی جنگ پر نہ تو میں کوئی تبصرہ کرنا چاہتا ہوں نہ اس نازک مرحلے پر کوئی مشورہ دینا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وقت اس خاندان کے لیے بہت مشکل ہے۔ اللہ ہمیں ایسی صورت حال سے محفوظ فرمائے۔ اس واقعے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جس نے قوم کو متحد رکھنا ہوتا ہے، قوم کو اتحاد اور اتفاق کا پیغام دینا ہوتا ہے اگر وہ خود ہی متحد نہ رہ پائیں تو قوم کو متحد کیسے رکھیں گے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں سب سے بڑی کمی اسی چیز کی ہے۔ ہم اس معاملے میں بہت بدقسمت ہیں کہ نہ تو ہمیں کوئی متحد رکھنے والا ہے، نہ کوئی سمت کا تعین کرنے والا ہے، نہ کوئی خدمت کی سیاست کرنے والا نظر آتا ہے، نہ ہی کوئی قربانی دینے کے لیے تیار ہے البتہ سب ایک دوسرے کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے سوچنے کا انداز بدلے،  کاش کہ ہم رشتوں کی قدر کرنا سیکھیں، کاش کہ ہم رشتوں کے بجائے مفادات قربان کرنے والے بن جائیں۔ کاش ایسا ہو جائے۔

اب پاکستان تحریک انصاف کی ڈیجیٹل سرکار کی طرف آتے ہیں۔ قارئین کرام آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو یہ سمجھ ضرور ہونی چاہیے کہ حقیقی زندگی بھی کوئی چیز ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان شاید اس پر یقین نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہی ڈیجیٹل ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کاغذات نامزدگی والا مرحلہ آپ نے دیکھا ہے، پی ٹی آئی کے بہت سے لوگوں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو کاغذات نامزدگی جمع کروانا چاہتے ہوں گے لیکن وہ خود ساختہ "روپوش" ہیں، یا یہ کہا جائے کہ وہ خود ساختہ جلا وطنی کہ طرح خود ساختہ "روپوشی" پر ہیں۔ اس لیے انتخاب عمل سے ذرا دور ہیں، کچھ ایسے ہیں جو انتخابات کا حصہ تو بننا چاہتے ہیں لیکن ان میں باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جو دل ہی دل میں انتخابات کا حصہ بننا چاہتے ہیں لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ سب کے سب سوشل میڈیا پر جو دل چاہتا ہے لکھتے رہتے ہیں۔

بات بانی ایم کیو ایم سے ہوتی ہوئی بانی پی ٹی آئی تک پہنچ چکی ہے اور اس جماعت کی قیادت کو آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ نو مئی کے واقعات کو نہ تو غیر سنجیدہ لیا جا سکتا ہے نہ اسے کوئی سیاسی غلطی کہا جا سکتا ہے یہ باقاعدہ طور پر ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور سازش تھی بلکہ میں تو اسے بغاوت لکھتا آ رہا ہوں۔ یہ پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے ایک بغاوت تھی جسے ناکام بنایا گیا ہے جب تک لوگ اس بیانیے کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ نو مئی ایک سیاسی سرگرمی تھی اس وقت تک اصلاح تو ممکن نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی تو آج بھی سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی احتجاج تھا۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا، ان کے چند قریبی لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں، حکومت میں ہوتے ہوئے مکمل طور پر ناکام ہونے کے بعد اب یہ سب ڈیجیٹل سرکار بنانے کے چکر میں ہیں اور حالات ان کے ہیں شاید یہ اس میں بھی خوش رہیں کیونکہ دوسروں کو برا بھلا کہنا لعن طعن کرنا سب سے آسان ہے اور یہ کام پی ٹی آئی کے ڈیجیٹل ماہرین ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح اس جماعت کے انتخابی نشان کا مسئلہ ہے تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں ان کے لیے مزید مشکلات ہو سکتی ہیں۔

آخر میں محسن نقوی کا کلام

دسمبر مجھے راس آتا نہیں ! 

کئی سال گزرے 

کئی سال بیتے 

شب و روز کی گردشوں کا تسلسل

دل و جان میں سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے 

زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے

چٹختے ہوئے خواب

آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں

مگر میں اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو

بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر

اب تک وہی جستجو کا سفر کررہا ہوں 

گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا

مگر سال کے آخری دن 

نہایت کٹھن ہیں

میرے ملنے والو!

نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے

تو ملنا

کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں

یہ بجھتا ہوا دل

دھڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں

دسمبر مجھے راس آتا نہیں

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.