ریلوے اسٹیشن کا رومانس


یاسر پیر زادہ

ہم لاہور سے روانہ ہوئے تو دوپہر کا ایک بج رہا تھا، خیال تھا کہ شام تک میانوالی کی حدود میں داخل ہوجائیں گے ، مگر وہاں پہنچتے پہنچتے رات ہوگئی ۔قصور ہمارا اپنا تھا ، برادرم گلِ نوخیز اختر کو چائے کی طلب ایسے ہوتی ہے جیسے کسی نشئی کو ہیروئن کی،ادھر گاڑی موٹر وے پر چڑھی ادھر موصوف نے ’چائے چاہیے ‘کا نعرہ لگایا،چار و ناچار ہمیں پہلی بریک سکھیکی پہ لگانی پڑی۔حسبِ عادت موصوف نے چائے کے ساتھ دال ماش اور تنور کی روٹیوں کا آرڈر بھی دے دیا،ہم نے بھی احتیاطاً ایک پلیٹ بریانی منگوا لی کہ اگر دال اچھی نہ ہوئی تو پلان بی کے تحت بریانی سے کام چلالیں گے، یوں سمجھیں کہ یہ ہمارےسفر کا SoP ہے۔سب دوستوں نے باتیں تو بنائیں مگر ’دال بڑی مزیدار‘ کہہ کر لقمے بھی توڑتے رہے اور نوخیز صاحب اُنکی شکل دیکھتے رہ گئے۔اِس کے بعد ہم نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی کہ اب کم از کم اگلے تین گھنٹوںتک کہیں نہیں رکیں گے۔اِس قرارداد کی پہلی خلاف ورزی کلر کہار پہنچنے سے پہلے اُس وقت ہوئی جب گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے میرے کزن قمر راٹھور صاحب نے از خود نوٹس لے کر پہاڑوں کے درمیان نیاتعمیر شدہ سروس ایریا دیکھ کر گاڑی روک لی اور گرماگرم چائے پینے کا فیصلہ کیا۔ہمارے سامنے پہاڑ تھے جن کے درمیان سے موٹر وے بل کھاتی ہوئی گزر رہی تھی ،شام کے سائے آہستہ آہستہ لمبے ہو رہے تھے ،خنکی بھی بڑھ رہی تھی،ہم نے اِس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے کی کوشش کی مگر یہ منظر ہر پل تبدیل ہورہا تھا،ہماری آنکھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ایسے رومان انگیز ماحول میںیار ِ دیرینہ اجمل شاہ دین کی اچانک آواز آئی :’ہمیں مٹی کے پیالوںکی بجائے ڈسپوزبل کپس میں چائے پینی چاہیے،مٹی کے پیالے صحت کیلئے ٹھیک نہیں ۔‘اجمل صاحب سفر کے دوران کھانے پینے کی چیزوں کی یوں پڑتال کرتے ہیں جیسے کوئی فوڈ انسپکٹر دورے پر نکلا ہو۔ہم جہاں بھی کسی ڈھابے پر رکتے وہاں موصوف دیگچیوں کے ڈھکن اٹھا کر سالن سونگھ کر چیک کرتےاور پھر سر ہلا کر کہتے کہ جس گھی میں یہ پکایا گیا ہے اگر وہ ہم نے کھا لیا تو گھر پہنچنے سے پہلے کینسر ہوجائے گا۔اِس سفر کے دوران آنجناب نے تمام ڈھابوں کے مالکان کو مشورہ دیا کہ وہ زیتون کے تیل میں کھانا پکایا کریں، روٹی اور نان کیلئےمیدے کی بجائے چکی کا آٹا استعمال کیا کریں اور فارمی انڈوں کی بجائے گاہک کو ہمیشہ دیسی انڈےپیش کیا کریں۔میرا خیال ہے کہ اگر ڈھابے والے اجمل شاہ دین کے مشوروں پر عمل کریں تواِس کے حیرت انگیز نتائج نکلیں گے اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں اُن کے کاروبارکا دوالہ نکل جائے گا۔


لاہور اسلام آباد موٹر وے سےسیدھا نکل کر ہم ڈی آئی خان موٹر وے پر آگئے ،ہمارے سفر کا ایک مقصد اِس راستے کو ’دریافت‘ کرنابھی تھالیکن بدقسمتی سے وہاں پہنچتے پہنچتے رات ہوگئی اور ہم سڑک کے ارد گرد تا حد نگا ہ تک پھیلی ویرانی نہ دیکھ سکے۔کچھ مداوا اِس بات کایوں ہوا کہ بیچ راستے میں ایک ٹوٹا پھوٹا سا سروس ایریا مل گیا، اُس وقت رات ڈھل چکی تھی، اکا دکا گاڑیاں وہاں رکی ہوئی تھیں، ایک کھوکھا تھا جہاں سے چائے ، چپس اور بسکٹ وغیرہ مل رہے تھے،پٹرول پمپ کے آثار تو نظر آرہے تھے مگر یہ ویسا ہی پٹرول پمپ تھا جیسا ’بلیک مرر‘ کی ایک قسط’بلیک میوزیم‘ میں دکھایا گیاتھا، دور دور تک آبادی کا نام نشان نہیں تھا۔ڈی آئی خان موٹر وے سے اتر کر ہم نے اپنا رُخ داؤد خیل کی طرف کر لیا، یہ میانوالی سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹا سا قصبہ ہے،یہاں آنے کا ایک مقصد تو اِس جگہ کاقدیم ریلوے اسٹیشن دیکھنا تھا اور دوسرا دریائے سندھ کا نظارہ کرناتھا۔


اگلی صبح کا ناشتہ ہم نے ریسٹ ہاؤس میں کیا، جسے اجمل شاہ دین نے بخوشی پاس کردیا کیونکہ ناشتہ دیسی گھی میں تیار شدہ پراٹھوں اور دیسی انڈوں پر مشتمل تھا۔ہمیں بن ٹھن کر نکلتے ہوئے تقریباً بارہ بج گئے ، ہمارا ارادہ تھا کہ داؤد خیل سے قریبی قصبے پائی خیل تک بذریعہ ٹرین جائیں جو بیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے اور پھر وہاں سے گاڑی میں واپس آجائیں۔دادؤ خیل کااسٹیشن ماسٹر ایک دلچسپ آدمی تھا،اُس نے ہمیں بتایا کہ داؤد خیل کا اسٹیشن دیکھنے میں تو چھوٹا ہے مگر اصل میں یہ کافی اہم جنکشن ہے،اسٹیشن کی عمارت انگریز دور میں تعمیر کی گئی تھی مگر بعد میں اُس عمارت کی جگہ دوسری عمارت تعمیر کی گئی مگر وہ بھی اب قدیم ہی تصور ہوتی ہے۔اِس اسٹیشن کے تین پلیٹ فارم تھے ، مال گاڑی کیلئے علیحدہ پٹری تھی، پرانی طرز کا ٹکٹ گھر تھا، مسافروں کیلئے انتظار گاہ بھی تھی جس کے باہر درجہ دوم اور درجہ اوّل لکھا تھا۔ایک چائے کا کھوکھا تھا جہاں سے نہایت اعلیٰ قسم کے پکوڑے مل رہے تھے ۔ ہم پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگے جو شاید ایک گھنٹہ لیٹ تھی۔اسٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ یہ جنکشن ریلوے کواچھی خاصی کمائی کرکے دیتا ہے اور اِس کی وجہ حال ہی میں انتظامیہ کی طرف سے عائد پابندی ہے جس کے تحت مال بردار گاڑیوں پر سامان لادنے کی مقررہ حد میں کمی ہے جس کے بعد سیمنٹ فیکٹریاں بذریعہ ریل مال بھجوانے پر مجبور ہیں۔ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اسٹیشن کے اہلکار نے گھنٹہ بجایا، یہ اِس بات کا اعلان تھا کہ ٹرین آنیوالی ہے لہٰذا مسافر ٹکٹ خرید لیں۔اسٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ ریلوے کے قواعد میں اِس گھنٹےکا ذکر موجود ہے کہ شمال اور جنوب کی طرف سے آنے والی ٹرینوں کی آمد کا ذکر کس طرح مختلف انداز میں گھنٹہ بجا کر کیاجائے گا۔


داؤد خیل جنکشن سے ہم ٹرین میں بیٹھے اور بیس منٹ میںپائی خیل پہنچ گئے ، یہ اسٹیشن کسی زمانے میں انگریزوں کیلئے چھوٹے سے قلعے کا کام دیتا تھامگر بعد میں اسے ریلوے اسٹیشن میں تبدیل کر دیا گیا۔پرانی طرز کے بنے ہوئے یہ اسٹیشن اب ماضی کا قصہ بنتے جا رہے ہیں، ریلوے اسٹیشن کی عمارتیں اب جدید طرز کی تعمیر کی جا رہی ہیں جو ریلوے طرزِ تعمیر سے بالکل مطابقت نہیں رکھتیں،اِن پرانی عمارتوں کا رومانس ہی تو ہےجس کی وجہ سے ہم اتنی دور آئے تھے۔ٹرین سے اتر کر ہم اسٹیشن سے باہر بنے ہوئے ڈھابے پر آگئے تاکہ چائے پی جائے۔دوستوں کا ساتھ تھا، فراغت تھی، سرما کی دھوپ تھی اور گاؤں کا سکوت تھا۔ہمارا خیال تھاکہ شاید وقت یہاں تھم گیا ہے مگر وقت بہت بے رحم ہے ،رکتانہیں ہے، سب کچھ روندتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ، ایک روز ہمیں بھی روند ڈالے گا،لیکن اُس وقت تک جی لیتے ہیں،اپنی مرضی سے!

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.