عیار لوگ ایماندار قیادت کے خواہش مند!!!!!

محمد اکرم چوہدری

پاکستان میں ہر دوسرا شخص روزانہ کی بنیاد پر سیاسی قیادت کو برا بھلا کہتا رہتا ہے، میں بھی ملکی مسائل کا ذمہ دار سیاسی قیادت کو قرار دیتے ہوئے لکھتا رہتا ہوں ۔ پاکستان میں اخبارات میں لکھنے والے اور ٹیلی ویژن چینلز پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے بھی سیاسی قیادت یا حکمران طبقے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ حکمرانوں پر ملبہ ڈالنا ایک حد تک تو ٹھیک ہے، چونکہ وہ اقتدار میں ہوتے ہیں، اختیار رکھتے ہیں، فیصلوں کی طاقت رکھتے ہیں، ان کے کہنے کا اثر ہے، ان کا لکھا فرق پیدا کرتا ہے اس لیے انہیں ایک حد تک ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی قیادت یا حکمران طبقے پر تنقید کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انفرادی حیثیت میں پاکستان ہر دوسرا شخص اخلاقی طور پر اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ جھوٹ کی چلتی پھرتی دکان ہے ۔ دوسروں پر ملبہ ڈالنا بہت آسان ہے اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا بھی آسان ہے لیکن اپنا محاسبہ سب سے مشکل ہے۔ کافی وقت گذرا ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان کے وہ بڑے مسائل جن کا ہم اکثر ذکر سنتے ہیں اور جن پر ہر روز میڈیا میں گھنٹوں بحث ہوتی ہے دراصل ان سے بھی بڑا مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ اگر ہم اخلاقی طور پر کمزور ہیں تو بڑی سے بڑی اور مضبوط ترین معیشت بھی ہمیں نہیں بچا سکتی ، اگر ہم بددیانت ہیں، جھوٹے ہیں، عہد شکنی کرتے ہیں ، بد اخلاق ہیں ، ناانصافی کرتے ہیں، لوگوں کا حق کھاتے ہیں، میرٹ پر تقرریاں اور تعیناتیاں نہیں کرتے تو مضبوط سے مضبوط نظام بھی ہمیں تباہی سے نہیں بچا سکتا ۔ آج کون سی خرابی ہے جو بحثیت قوم ہمارے اندر نہیں پائی جاتی، جھوٹ ہم دبا کر بولتے ہیں، غیبت میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، بددیانتی ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، ناانصافی میں کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا، میرٹ کی دھجیاں ہم بکھیرتے ہیں، کسی باصلاحیت کی حوصلہ افزائی کے بجائے اپنے نالائق رشتہ دار یا دوست کو نوازنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ، جہاں مالی بدعنوانی کا موقع ملتا ہے کوئی رعایت نہیں کرتے، بے رحم انتہا کے ہیں۔ قانون توڑنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے، نمود و نمائش کے عادی ہو چکے ہیں، مکاری و عیاری کو صفات میں شمار کیا جاتا ہے، وعدے توڑنے والے کو سمارٹ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی شاید ہی کوئی خرابی ہو جو ہمارے روز مرہ کے کاموں میں شامل نہ ہو ۔ برائیوں اور خرابیوں کے اس اتوار بازار میں ہم توقع یہ کرتے ہیں کہ قیادت ایماندار ہونی چاہیے، قیادت کو سچ بولنا چاہیے ، قیادت کو میرٹ پر کام کرنا چاہیے، قیادت کو انصاف کرنا چاہیے، قیادت قانون کی پاسداری کرے، قیادت سادگی اختیار کرے، قیادت بدتہذیب نہ ہو، قیادت عاجزی کا مظاہرہ کرے۔ 

اگر ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ قیادت بہت اچھی ہو تو ہم خود کیوں اچھا نہیں ہونا چاہتے، ہم کیوں ہر وقت کسی نہ کسی کو نیچے گرانے، کہیں نہ کہیں غیر ضروری کاموں میں الجھے رہتے ہیں، ہم خود کیوں جھوٹ بولنا ترک نہیں کرتے۔ ہم اتنے دوغلے ہیں کہ اپنے لیے اور معیار ہیں دوسروں کے لیے اور ہیں ۔ ہم جھوٹے ہیں ، مکار و عیار، بددیانت، کم ظرف اور بے رحم ہیں مسئلہ صرف تسلیم کرنے کا ہے۔ ہم تسلیم نہیں کرتے لیکن حقیقت یہی ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے۔ بہرحال اب ایک مرتبہ پھر اسی بری حالت میں ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کاش کہ ہماری سیاسی قیادت اور حکمران طبقہ بھی معاشرے میں پھیلی ان برائیوں اور خامیوں کو سمجھنا شروع کر دے۔ کاش کہ سیاسی قیادت قوم کی اخلاقی تعمیر پر توجہ دے۔ بہت وقت گذر گیا میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معیشت، سیاست یا لاقانونیت نہیں بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ باقی تمام خرابیاں اسی زوال سے نکلی ہیں۔ جب تک ہم اخلاقی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ یاد رکھیں اخلاقی معیار کو بلند کرنے اور اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کے لیے ہمیں مذہب کی طرف جانا پڑے گا۔

آخر میں منیر نیازی کا کلام

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو

 کوئی وعدہ نبھانا ہو

اسے آواز دینی ہو

 اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی

 یار کی ڈھارس بندھانا ہو

بہت دیرینہ رستوں پر

 کسی سے ملنے جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

بدلتے موسموں کی سیر میں

 دل کو لگانا ہو

کسی کو یاد رکھنا ہو

 کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

کسی کو موت سے پہلے

 کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ

 اس کو جا کے یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.