نگاہوں میں خزاں ہے اور میں ہوں بصارت کی کمزوری اور دنیا کی حقیقت

 


 فیصل اعوان

دور کا ڈھول سہانا کا محاورہ ہمیں اس وقت سمجھ آنا شروع ہوا جب نزدیکیاں دھندلانے لگیں۔ اب آپ پوچھیں گے کیسے تو جناب کوئی چھ ماہ قبل اچانک موبائل پر لکھے حروف دھندلانے لگے اور یہاں تک کہ نزدیک موجود ہر چیز غیر واضع ہونے لگی چونکہ زندگی میں پہلی دفعہ یہ حالات رونما ہو رہے تھے اسلیے کوئی خاص توجہ نا دی۔ اس دھند میں بھی بہتری کے بہت پہلو ہیں اور بالخصوص قریبی رشتے ہوں یا اشیاء ان پر جتنی توجہ مرکوز کی جائے آنکھوں سے پانی برستا ہے۔ تو کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا یعنی دھندلا پن اور آنکھوں سے پانی بہنا۔ اس وقت جگن ناتھ آزاد بہت یاد آئے


تصور میں بہاریں ہیں گل افشاں

نگاہوں میں خزاں ہے اور میں ہوں


ایک ستمگر دن دوست کے ہمراہ موبائل آنکھوں سے فاصلے پر کر کے میسج پڑھنے کی کوشش میں تھا کہ آواز آئی


فیصل آپکی نظر کمزور ہو رہی ہے


زہین میں یکلخت جھماکا سا ہوا کہ یہ خیال مجھے کیوں نا آیا۔ 

اسنے نزدیک کی عینک اتاری اور مجھے دی کہ چیک کروں چشمے کا آنکھوں سے ملاپ ہونا تھا کہ تو قریب موجود ہر چیز واضع ہوگئی۔ 


ہم بھاگم بھاگ چشمہ ساَز کے پاس پہنچے بصارت کی جانچ کروائی تو کمزور نکلی عینک بنوائی اور اصل کھیل اسکے بعد شروع ہوا۔ 


یعنی ہر دوسرے دن عینک گم ہو جاتی۔ تین چار ماہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور اسکی دوکان۔ پھر عینک سنبھال رکھنے کی بھی عادت ہوگئی۔ 


آج پھر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا عینک لگائی تو موبائل کی سکرین ایک آنکھ سے دھندلی دوسری سے درست دکھائی دی۔ رگڑرگڑ کر موبائل سکرین کو صاف کیا آنکھوں کو صاف کیا مگر سب لاحاصل ٹھہرا۔ 

 کچھ دیر بعد ایک ہاتھ عینک کے عدسے پر لگا تو ایک عدسہ ہی غائب پایا۔ 

یہ تو زکر تھا بصارت کی کمزوری کا۔ ویسےعمر چالیس سال ہو جائے تو پھر کمزوریاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں بس یہ کمزوریاں اخلاقی نہیں ہونی چاہیں اب اخلاتی کمزوریوں کے بھی اپنے معیار ہیں اسلیے شاید یہ فقرہ بھی لکھنا درست نہیں۔۔ البتہ سوچیں تو چالیس کے بعد ہی جوان ہوتی ہیں۔ مشاہدے تجربات چالیس کے بعد انسان کی سوچوں سے جھلکتے ہیں۔ 

سوچ پر عباس تابش کا ایک خوبصورت شعر 


تابشؔ جو گزرتی ہی نہیں شام کی حد سے

سوچیں تو وہیں رات سحر خیز بہت ہے


عمر رواں میں زمین بھی دیکھی آسمان بھی دیکھا۔عزت زلت کا حقیقی مفہوم بھی سمجھا۔ ایک ایک لفظ پر واہ واہی بھی سمیٹی اور آنکھوں سے رواں آنسووں کو بے ثمر ہوتے بھی دیکھا۔اپنے لکھےایک جملے پر طوفان بھی آتے دیکھے اور لبھی انہی طوفانوں کی لپیٹ میں اپنا آپ بھی اڑتے محسوس کیا۔جان وارنے والوں کو کھویا بھی اور اجنبیوں کو خود سے بھی نزدیک ہوتے پایا۔ مگرحاصل کیا؟ ان تجربات مشاہدات کا نچوڑ صرف یہ کہ انسان کی کوئی اوقات نہیں۔جھکاو میں اٹھاو ہے۔ بےضرر ہونے میں طاقت ہے۔ شرافت میں عظمت ہے۔خاک میں راحت ہے۔ 


یہ راتیں یہ دن یہ لمحے خوشگوار گزریں بھی تو ٹھیک ناخوشگوار گزریں بھی تو کیا مضائقہ ہے سب عارضی ہی تو ہے۔ 


اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے

ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے


جب ادھورا پن ہی فطرت ہے تو مکمل کی جستجو کیسی۔ جب ہجر ہی اصل ہے تو وصل کی تمنا کیوں۔زندگی دو گام اور آگے بڑھے گی تو اک نئی منزل اک نیا راستہ۔ یہ کب ممکن ہو پایا ہے کہ زندگی نے کسی منزل پر پڑاو ڈال دیا ہو۔ پھر جو ساتھ چلے انکا بھی شکریہ جو راستے بدل گیے انکا بھی شکریہ۔ زندگی ایک ہی بار پڑاو ڈالتی ہے اور یہ پڑاو اچانک ہوتا ہے اتنا اچانک کے زمانے کے تیز رفتار گھوڑے سے اترنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ 


سیل زماں میں ڈوب گئے مشہور زمانہ لوگ

وقت کے منصف نے کب رکھا قائم ان کا نام

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.