8 فروری: نوید سحر یا شبِ یلدا؟


ڈاکٹر مجاہد منصوری

بالآخر قومی بحرانوں، حادثات اور المیوں سے اَٹی ہماری  76 سالہ تاریخ میں وہ لمحہ آن پہنچا جس میں ،یک روزہ لگی عوامی عدالت فیصلہ کرے گی کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے آئینی نام کے بگڑے جکڑے پاکستان کی تعمیر نو بمطابق ملکی دستور:’’ آئین کے مکمل اطلاق اور قانون کے شہریوں پر یکساں نفاذ‘‘ کویقینی بنا کر کی جائے یا اسے بدستور امرا ء شاہی کےٹھاٹ باٹ اور من مرضی کے اختیارات سے ہی موجود اولیگارکی (مافیا راج) کو اپنی انتہائی شکل اور پورے زور و شور سے جاری رکھا جائے۔ الیکشن تو پاکستان میں ہوتے رہے اور گزرا (18-2007) عشرہ جمہوری اور انتخابی ہی تھا لیکن 8 فروری کو ہونے والے الیکشن روایتی نہیں پوری پاکستانی قوم اور دستور پاکستان کیلئے بڑا چیلنجنگ ہے۔ ایسے کہ پاکستانی عوام پہلی مرتبہ اپنی یک روزہ عدالت دستوری ڈھب کی بننے کی بجائے اولیگارکی کےہاتھوں سے ڈیزائن ہوئی، واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، وہ اس اذیت ناک ناانصافی اور روایتی منافقانہ انتخابی مہم کی چند روزہ ووٹ اور ووٹر کی عزت سے بھی محروم کردیئے گئے ہیں۔ سیاسی امراء شاہی نے بڑی حکومت کی چوتھی باری کی پکی یقین دہانی اتنی کرائی ہے کہ اپنے تئیں تو اولیگارکی نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کابیانیہ خود اپنے ہاتھوں دفن کردیا کہ ’’کہیں کسی کی نظر نہ پڑ جائے‘‘اور مسروقہ آسودگی میں خلل ڈالنے والے پریشان حال کوچہ گرد ’’ووٹ کو عزت دو... ووٹ کو عزت دو‘‘کی دہائی نہ دینے لگیں۔ لیکن معاملہ دہائیوں اور روایتی احتجاج سے نکل کر سہمے ووٹرز کی طوفانی خامشی اور اپنی قوتِ اخوت ِعوام کے زور پر عوامی ضروریات اور غریب و متوسط خاندانوں کے خاندانوں کو جکڑنے والی محرومیوں سے نجات کے عزم صمیم تک پہنچ گیا ہے۔ دوسری جانب امراء راج (حقیقت میں نظام بد) اپنےمحفوظ دائرے سے باہر ہونے کو کسی طور پر تیار نہیں، وہ اس گھن چکر میں عوام کو جبراً رکھنے کی ذہنیت نہیں بدل سکا۔ جبکہ عوام کی بھاری اکثریت تیزی سے حاصل ہوتے شعور سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اب واپس جانے کو تیار نہیں، اس کے سب جتن ناکام، ووٹرز تو ایک طرف اولیگارکی کی پارٹیوں کے باہمت چند باغی اور گستاخ خلق خدا کےتیور پڑھ کر دائروں میں پتلی گلی نکال کر بڑی احتیاط سے ڈرتے بچتے عوام میں آن ملے اور مل رہے ہیں۔مافیا راج کے طاقتور بینفشری 8فروری کے الیکشن پاکستانی دائرے کو گڑھا بنا کر باہر ہوگئے عوام کو دوبارہ گھسیٹ کر دائرے میں ڈمپ کرنے کی بدنیتی سے الیکشن کو مین ڈیٹڈ کی بجائے ممکنہ حد تک مینجڈ کرنے کی تگ و دو میںدکھائی دیتے ہیں۔ یہ سرکاری معاون اداروں کی اشیر باد سے پورا زور لگا چکے ہیں کہ ان کی بچت دائروں کی بقا میں ہی ہے۔ یہ اپنی سیاسی بیس کی 260 ڈگری کی گول لکیر کو ہی اپنے تحفظ کی ناگزیر سرحد سمجھتے ہیں۔میٹرک پاس جانتے ہیں کہ جیومیٹری کے اصول کے مطابق دائرہ 260 کی ڈگری سےتشکیل پاتا ہے، اس کیلئے عمودی لکیر لگتی ہے نہ افقی، جو مسافر کو آگے سے آگے اور بلند سے بلند لے جاتی ہے، تبھی تو منیر نیازی نے کوئی سیاست بگھارے بغیر ہمارے مکارانہ سیاسی سفر کو بڑی ہوشیاری اور شاعرانہ کمال سے دائرے کاسفر قرار دیا تھا۔سیاست اور نیازی کی بات ہوئی ہے تومجھے دو نیازی کھٹ سے ذہن میں آگئے۔ ایک تو دائروں کے سفر کے باغی نیازی کو اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا۔ ملکی جاری اسٹیٹس کو کا نظام عدل و احتساب اسے بہرحال دائروں سے نکلے عوام سے دور رکھنے کیلئے جلد انصاف دینے پر آمادہ نہیں کہ فراہمی انصاف کی یہ سستی اور نااہلی و بددیانتی اب ثابت شدہ کیس ہے۔ دوسری جانب اولیگارکی عوام سے خود دور ہوگئی، یوں ووٹرز تنہا اور نہتے؟ لیکن عوام کبھی تنہا ہوئےہیں نہ نہتے۔ خود شناسی شرط اول ہے، جس کی کمی اولیگارکی کی عشروں میں کم سے کم تر ہوتی گئی اور عوام اپنی شناخت کھو بیٹھے تھے کہ باغی نیازی باکمال کرکٹ اور بڑے فلاحی مشن سے فارغ ہو کر عوام کو دائروں سے نکالنے اور ان کی ختم ہوئی خود شناسی کی بحالی کے مشن پر نکل کھڑا ہوا۔اپنے اناڑی پن،سیاسی ابلاغ کی منہ پھٹ اور کھوئی جماعتی تنظیم کے باوجود نیک نیتی اور دیانت کے زور پربہت کچھ حاصل کرنے اور قوم و ملک کیلئے کرنے میں کامیاب ہوگیا تو مافیا راج کی چولیں ہلنے لگیں۔ اقتدار ڈگمگا گیا۔ باہر جو اماں ملی وہ بھی ووٹروں کی طرف سے مسلسل تذلیل و محرمی کا ذریعہ بنتی گئی۔


پاکستانی روایتی سیاسی ڈھانچے (دائرے) کی اولیگارکی نے آج اسلامی جمہوریہ کو جہاں پہنچایا، اس میں مہینہ دسمبر کا ہو اور کمپین فری الیکشن کی اولیگارکی سٹائل کی تیاریاں اور مکاریاں کہ امیدواروںکیلئے کاغذات نامزدگی حاصل اور جمع کرانے بھی محال نہ ہو جائیں تو ’’سیاسی حل‘‘ کی قرارداد کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے جنرل نیازی کے بھی ملٹری آپریشن کی تباہ کاری تو یاد آئے گی۔ رونا یہ ہے کہ دائرے میں بند نیازی سے لے کر دائروں کو توڑتے باغی نیازی تک آج پھر دائرے میں رہنے اور اسے توڑ کر 90ڈگری (جانب بلندی) پر پاکستان کو لے جانے کا معرکہ سرپر آن کھڑا ہے۔


پتھر پہ لکیر یہ نہیں کہ الیکشن 8فروری کو ہونے ہیں ،یہ ہو کہ یہ شفاف، غیر جانبدار اور بمطابق آئین ہوں،جس میں پہاڑ سی رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ قارئین کرام! دسمبر کی آمد ہوئی تو 2دسمبر کا ’’آئین نو‘‘ بعنوان’’خلق خدا کو خوشخبری، چراغ سحری بھڑک اٹھا‘‘تحریر کیا تھا کہ ملک میں بڑھتی مایوسی مزید نہ بڑھے کہ ہماری تاریخ میں دسمبر انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنےسے ملک دولخت ہوا۔ اب کی بڑھتی مایوسی میں اتنا یقین تو بڑھ رہا تھا کہ ملک کی موجود گھمبیر صورت میں بھی الیکشن تو نہیں روکا جا سکتا، اسے ہی نوید سحر قرار دیا گیا، لیکن اب الیکشن کے آئینی تقاضوں کے برعکس جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر قوم کو اندھیروں میں رکھنابھی جرم ہے، حقیقی صورت یہ ہی ہے کہ چیلنج بن گیا ہے کہ 8فروری کے الیکشن کو نوید سحر میں بدلنا ہے یا شب یلدا میں؟شب یلدا کی فارسی شاعری میں لمانوٹیشن ظلمت کی طویل اور منحوس رات ہے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ طویل رات کا یہ اختتام جب اندھیرا (ظلمت) گھمبیر ہوتا ہے تو یہ نوید سحر کی علامت بھی ہوتی ہے، جسےٹالانہیں جا سکتا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.