معاشرتی بگاڑ کی وجوہات


ملک فداالرحمن
معاشرتی الجھاؤ اور اجتماعی رویوں میں کھچاؤ کے قصے دو چار برس کی بات نہیں بلکہ صدیوں پر محیط انسانی سفر کی باقیات ہیں۔کسی بھی قوم کی بنیادی اکائی فردواحد ہے۔فردواحد کی تعمیر میں بنیادی عنصرماں کی گود ہے جہاں سے عادات کی پختگی کا سبق ملتا ہے۔ماں باپ کے رویوں میں تضاد اور اجتماعی سوچ کا فقدان بچوں کی شخصیت پر انفرادیت اور خود غرضی کے آثار پیدا کرتا ہے۔جس گھر کے افراد خود غرضی اور لالچ کو شعور دیں۔اخلاق اور کردار میں جھوٹ اور مکر و فریب کا بیج بوئیں وہ نسل انسانی میں معاشرتی برائی کو جنم دیتے ہیں۔یہ خود غرض اکائی جہاں بھی ہوگی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔گھریلو ماحول سے باہر بچوں کی تربیت میں دوسرے رشتے بھی انسانی سوچ او شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔گھر میں نا انصافی کے رویے،  رواداری اور برداشت کا فقدان،  لالچی ذہنیت بھی شخصیت کے اصل روپ کو متاثر کرتے ہیں۔بچپن کی عادات اس قدر مستقل اور پختہ ہو جاتی ہیں کہ پھر ساری زندگی اسی سفر میں گزر جاتی ہے۔.

جب آنکھوں کی روشنی کارخانہ ئ  قدرت میں پھیلاؤ مانگتی ہے، جب محبت اورخلوص کے دائرے بڑھتے ہیں، چاہت کے جذبے وسیع ہوتے ہیں،  پسند اور نا پسند کی تمیز جنم لیتی ہے تو سوچ کے دائروں میں خلل پیدا ہوتا ہے۔معاشرتی رویوں کے نشیب و فراز کبھی تو محبت اور خلوص سے انسانیت کے خوبصورت جذبات کو اخوت اور بھائی چارے کی لڑی میں پروتی چلی جاتی ہے اور کبھی نفرتوں اورخودغرضیوں کے جذبے اسی انسانی رشتوں کی چاشنی سے دور لے جاتے ہیں۔دنیاوی رویوں میں یہ چاشنی کبھی انسان کو پیار اور محبت کی بلندیوں کا نظارہ کراتی ہے اور کبھی دوری کے اثرات سے متاثر ہو کر انسان نفرتوں کی دلدل اور حقارتوں کے جذبے میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے کہ رشتوں کے تناظر ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔یہاں والدین اور رشتوں کی محبت اور شفقت کبھی نفرتوں کے فاصلے گھٹانے کے لئے حقیقت کے روپ بدلنے کی کوشش میں،  کبھی پیوندکاری کا عمل دہرانے میں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اور کبھی محبتوں کے بیجوں کی بکھیر سے معاشرتی اچھائیوں کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے.

۔بعض اوقات رشتوں کی محرومیاں منافقوں کی سوچ کے دائروں میں اس قدر شخصیت کو مسخ کرنے کا سبب ہوتی ہے کہ انسان اکیلا رہنا پسند کرتا ہے۔بدکردار لوگ شخصی زندگی کو اکیلا کرنے میں مزے لیتے ہیں۔اسے اپنی سیاسی چالیں اور مکاریوں کی کامیابی سمجھتے ہیں۔لیکن باہمت اور جرأتمند لوگ ایسے لوگوں کو گندے کیڑے سمجھتے ہوئے اپنی منزل کا رخ الجھاؤ سے بچا تے ہوئے حقیقتوں کی طرف لے جاتے ہیں۔نہ انہیں معاشرتی علیحدگی کا کبھی احساس ہوتا ہے نہ وہ کبھی منفی رویوں کا اثر لیتے ہیں،  نہ وہ کسی کے سہارے زندگی کا کٹھن سفر شروع کرتے ہیں اور نہ انہیں کسی سہارے کی امید ہوتی ہے۔وہ صرف اپنی منزل پر نظر رکھتے ہیں اور قدرت کی دی ہوئی زندگی کے انعام کو اس کے بتائے ہوئے راستوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔نہ انہیں رویوں کے تھپیڑوں کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ انہیں معاشرے کے بدکردار لوگوں کی چاپلوسی اور منافقانہ روشوں میں الجھاؤ پسند آتا ہے۔مکار اپنی جگہ سمجھتا ہے کہ اس نے زبردست چال چلی۔مسافر اپنے سفر میں مست گندگی سے دامن بچاتا اپنی منزل کی طرف رواں رہتا ہے۔باعمل انسان منافقت کے ہر جھٹکے کو کردار کی ہر برائی کو نفرت اور حقارت سے جھٹکتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے۔اور اس کے دل و دماغ کے دائرے حقیقتوں کی گہرائی ڈھونڈنے میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں.

۔یہاں زندگی کی عجیب روشنی پھوٹتی ہے جو انسانی حقیقتوں کوآشکار کرتی جاتی ہے۔کبھی اللہ تعالیٰ کی عنایت پر نظر پھیرتا ہے۔کبھی میری اور تیری انا کی بھٹی میں پگھلتا ہے۔دوسری درسگاہ جو انسانی نشوونما میں اپنے نقوش چھوڑتی ہے وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں بچے صرف اپنے ہم سفروں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ اساتذہ کی عادات، سوچ کے نکھار، عمل کے نمونے اور کردار کی گہرائی کے علاوہ فرائض بجا آوری میں لگن،  وقت کی پابندی کا احساس اور سچائی کی عظمت کو پہچانتے ہیں۔منفی پہلو جس میں سوچ کا فقدان،  شخصیت کے تعمیراتی نقائص،  یہی شخصیت بنانے میں اثر انداز ہوتے بلکہ اساتذہ اگر سفارشی ماحول بکھیرنے کی کوشش کریں،  لاقانونیت کا مظاہرہ کریں،  اخلاقی گراوٹ کو شعار بنائیں،  جھوٹ بولنے،  وقت کی پابندی نہ کرنے،  کا نمونہ دیں تو وہ نقش زندگی بھر شاگردوں کے ذہن سے خارج نہیں ہوتے۔ وہ طلباء جب عملی زندگی کا آغاز کریں تو یہ نقائص ان کے فرائض کی ادائیگی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔کام چوری ان کی فطرت کا حصہ ہوتی ہے۔جو معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے,

۔بعض اوقات بچوں کے گھریلو ماحول،   جو اچھے اخلاقی تربیت گاہ ہوتے ہیں سے بچہ بغاوت کر کے اساتذہ کے نقش قدم پر چلنے میں آسانی محسوس کر کے فسادی معاشرہ کو اپنا کر بد ترین اکائی ثابت ہوتا ہے۔اگلی تربیت گاہ کھیل کا میدان ہے جہاں بچے اپنے رویے پختہ کرتے ہیں۔ زندگی کا رخ اپناتے ہیں۔کبھی انہیں پتنگ بازی کی دوڑ میں ساتھیوں کے اثرات قبول کرنے میں راحت ہوتی ہے اور کبھی گراؤنڈ میں مقابلے کے منفی رویے غیر صحتمندانہ سوچ، ناانصافی، چالبازی، دھوکہ فریب اور جھوٹ سیکھنے کا موجب بنتا ہے۔یہ لو گ معاشرہ کے جس حصے میں بھی ہوں گے برائی کا رس گھولتے رہیں گے۔آج کل میڈیااور خاص کر سوشل میڈیا کا دور ہے ہر نوجوان کے پاس ایک نہیں تین تین موبائل ہیں اور کمپیوٹر ز ہیں۔وہ انہی میں الجھا رہتا ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ مہنگے موبائلز اور کمپیوٹرز دنیا بھر کی معلومات تو فراہم کرتے ہیں لیکن ادب و احترام نہیں سکھا سکتے۔ادب و احترام کا درس والدین اور اساتذہ ہی سکھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے استاد بھی ادب و احترام سکھانے پر توجہ نہیں دے رہے اور نہ ہی آج کل کے بچے اپنی کتاب کے سلیبس کے علاوہ کچھ سننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔

کھیل کے میدان بھی ویران ہو گئے ہیں اور تعلیمی نظام میں بہت خرابیاں آگئی ہیں۔ہمارے دور میں استاد کا جتنا احترام ہوتا تھا کہ میری 70سالہ زندگی میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر یا کسی پارٹی کا سربراہ گیا ہو جس کی موجودگی میں سٹیج پر ان کے ساتھ نہ بیٹھا ہوں یا تقریر نہ کی ہو کبھی جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی چند سال پہلے ایک تقریب میں میرے ساتھ تین وفاقی وزراء،  ایک وزیر اعلیٰ اور کچھ اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ بیٹھے ہوئے تھے تو تقریب کی نظامت میرے ذمے تھی۔میں اپنی گرجدار آواز سے یہ سارے فرائض بخوبی سرانجام دے رہا تھا کہ اچانک میری نظر گورنمنٹ ہائی سکول چکوال کے اپنے میٹرک کے استاد چوہدری محمد اسلم پر پڑی تو ساری تقریب میں میری ٹانگیں کانپتی رہیں۔ یہ وہی قابل عزت استاد تھے جنہوں نے ہمیں علم و ادب اور احترام سکھایا اور ان کا ادب و احترام آج بھی ہماری نسل کے لوگوں کی نس نس میں بھرا ہواہے۔ہمیں چند دہائیاں پیچھے کی وضع داری،رکھ رکھاؤ،  بزرگوں اور اساتذہ کا احترام نئی نسل کو اس محبت اور شفقت سے سکھانا چاہیے تاکہ یہ چیزیں ان کے دل و دماغ اور خون کی شریانوں میں دوڑنا شروع ہو جائیں ورنہ ادب و احترام کے لحاظ سے ہماری نئی نسل تباہی کے راستے پر چل پڑی ہے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.