"عباس منزل" بوچھال کلاں، عظیم انسان کی بے مثال تعمیر


علی خان
          علاقہ ونہار کے تاریخی قصبہ بوچھال کلاں کے قلب میں ایک تنگ گلی کے کونے سے اچانک ایک شاندار عمارت نکل کر سامنے آتی ہے۔  جدید طرز کے مکانوں میں گھری اس عمارت کا پہلا نظارہ انتہائی مسحور کن ہوتا ہے۔  گلی کے نکڑ پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو پس منظر میں نیلا آسمان اور اس کے سامنے کھڑی یہ عمارت کسی ماہر مصور کے شاہکار کا سا نظارہ پیش کرتی ہے۔

       یہ دوسری جنگ عظیم (1939ء تا1945ء) کے دوران تعمیر کی گئی عباس منزل ہے اسے علاقے میں "ماڑی"  بھی کہا جاتا ہے۔ پسماندہ علاقے میں اپنی جیب سے تعلیم،آب رسانی اور صحت  کی بہتری کے لیے کام کرنے والا ایک عظیم شخص انسان سیٹھ عباس خان اسی عمارت کے صحن میں مغربی سمت زمین اوڑھے سو رہا ہے۔ ان کی رفیقہء حیات کی قبر بھی ان کے ساتھ ہی موجود ہے۔

        یہ عمارت تعمیر کرانے والے سیٹھ عباس خان کو انسان دوستی، فراخ دلی اور سماج کی بہبود کے لئے کام کرنے کی وجہ سے " حاتم ونہار" اور لکھ داتا بھی کہا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کی سماجی خدمات پر انھیں تمغہ خدمت بھی پیش  کیا ہے۔  ان کی سماج کے لیے خدمات کی فہرست بہت طویل ہے اور ان کا  ذکر الگ سے ایک تحریر میں کروں گا۔

      سیٹھ عباس خان  منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہ ہوئے تھے بلکہ انہوں نے یہ مقام اپنی محنت اور لیاقت سے حاصل کیا تھا اور سیٹھ کہلائے۔ علاقے کی فلاح و بہبود اور غرباء کی امداد عمر بھر ان کا وطیرہ رہا۔ 

       سیٹھ عباس خان دسمبر 1888ء میں بوچھال کلاں میں پیدا ہوئے۔  بچپن ہی میں یتیم ہو گئے اور اپنے ماموں" بابائے ونہار" ملک مہدی خان کے سایہء عاطفت میں پرورش پائی۔ بابائے ونہار ملک مہدی خان کی علاقے کے لیے خدمات کی فہرست بھی نہایت طویل ہے اور اس کے لئے الگ تحریر درکار ہے۔ 

        سیٹھ عباس خان نے ابتدائی تعلیم ہائی سکول ڈلوال سے حاصل کی جبکہ میٹرک پنڈدادنخان ہائی سکول سے کیا۔ بچپن میں ایک چشمہ نہاتے ہوئے ان کے ایک دوست بلندی سے اوپر آ گرے جس سے گھٹنے پر لگنے والی چوٹ کے باعث عمر بھر لنگڑا کر چلتے رہے۔ اسی وجہ سے وہ علاقے کی روایت کے برعکس فوج میں بھی نہ جا سکے ۔  اس بات کو مگر انہوں نے روگ نہ بنایا۔

       1906ءمیں نہایت قلیل تنخواہ پر نوکری کے لئے ہانگ کانگ چلے گئے۔ہانگ کانگ وہ چالیس سال رہے اور اس دوران انتھک محنت اور دیانت سے وہاں پر چوٹی کے تاجروں میں شمار ہونے لگے۔  وہاں رہنے والی ہندوستانی کمیونٹی کے لیے انہوں نے فلاح و بہبود کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ 

       1938ء میں جب عباس منزل کی بنیادیں رکھی گئی تھیں تو سیٹھ عباس خان یہاں موجود تھے۔  1939ء میں جنگ عظیم شروع ہوئی تو انہیں ہانگ کانگ واپس بلالیا گیا جہاں پہنچتے ہی وہ دوسرے ممتاز تاجروں کے ساتھ جاپان کی قید میں چلے گئے۔  اس قید سے انہیں دو سال تک رہائی نہ ملی۔

     عباس منزل کی تعمیر اس دوران جاری رہی جس کی نگرانی ان کی اہلیہ محترمہ کرتی تھیں۔ عمارت کا نقشہ یقیناً ہانگ کانگ میں تیار کیا گیا تھا کیونکہ اس کا طرز تعمیر بھی وہی ہے جو وہاں کی بیشتر عمارتوں کا ہوا اس عہد میں ہوا کرتا تھا ۔

         یہ بے مثال عمارت تقریباً چھ سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔ یہ تین منزلہ ہےاور  اس کی تعمیر میں کئ لاکھ پختہ اینٹیں، سیمنٹ ،بجری، سریا اور قیمتی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ یہ عمارت اس عہد کی جدید ترین عمارت تھی اور بھی اپنے جاہ و جلال کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔

              بوچھال کلاں میں اس وقت آبادی بہت کم تھی اور تب یہ کئی کلومیٹر دور سے نظر آتی تھی۔  یہ نسبتاً اونچی جگہ پر ہے اور آپ بھی کلرکہار اور میانی سے آتے جاتے دیکھی جا سکتی ہے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اس کی بالائی منزل سے بھیرہ کے قریب دریا کا منظر بھی صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس کی فصیلوں پر چاروں کونوں میں سیمنٹ سے کنول کے پھول بنائے گئے ہیں۔

        چھتیں اونچی رکھی گئ تھیں جن پر موسموں کی شدت اثر انداز نہیں ہوتی۔عمارت کے فرنٹ پہ لگی سیمنٹ کی جالیوں اور درمیانی منزل کے برآمدے میں سیمنٹ کے بنے ستونوں پر وقت کا اثر نہایت کم ہوا ہے۔  اس کی زمینی منزل ایک بہت بڑے ہال پر مشتمل ہے۔ دروازے، کھڑکیاں اور روشندان نئ طرز کے ہیں جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں مگر اس وقت ان کا گھروں کی تعمیر میں رواج نہ تھا۔  بیرونی دیواروں پر سیمنٹ کے پلستر میں خوبصورتی کے لئے مختلف ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔ یہ کام نہایت محنت اور چابکدستی سے کیا گیا ہے۔  

      محتاط اندازے کے مطابق اس کی عمارت کی تعمیر پر اس وقت تقریباً 76 ہزار روپے لاگت آئی تھی۔  تعمیر کے وقت اس کا رقبہ کئ کنال تھا مگر اب یہ کل تقریبا تین کنال کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔  اس کی تین منازل میں 21  کے لگ بھگ کمرے ہیں۔ 

      اس عمارت کی تعمیر کے لئے ظفروال (ضلع ناروال) سے مستری بلائے گئے تھے۔ ان کے ساتھ موضع مرید کے کاریگر مستری میراں بخش نے بھی حصہ لیا تھا جو چکوال کے نامور کاریگر تھے۔ 

     جنگ عظیم ختم ہوئی تو 1946ء میں سیٹھ عباس خان بوچھال کلاں واپس آ گئے۔ اس روز جشن کا سماں تھا۔ ان کی اہلیہ نے اس عمارت کی بالکونی سے ایک ہزار روپے کے سکے غرباء پر نچھاور کیے۔ اہلیان علاقہ کئی روز تک مسلسل سیٹھ عباس خان سے ملنے آتے رہے۔

        قیام پاکستان کے بعد مستقل طور پر علاقے میں واپس آ گئے۔ یہاں کی بدحالی کو دیکھ کر سیٹھ  عباس خان نے کئی فلاحی منصوبے اپنی جیب سے شروع کرائے۔  تعلیم ،صحت اور صاف پانی کے مسئلے ان کی ترجیحات رہے۔ سماجی کاموں میں بھی بھرپور حصہ ڈالا اور اسی بناء پر علاقہ کے لوگوں نے انہیں سیاست میں حصہ لینے پر رضامند کیا۔ 1951ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ کا  ٹکٹ نہ ہونے کے باوجود وہ آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوگئے اور ممبر لیجسلیٹو اسمبلی بنے۔ بعد میں بھی وہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 

        انہیں شوگر کا عارضہ لاحق تھا۔ ایک کار حادثے کے نتیجے میں وہ صاحب فراش ہو گئے اور چند ماہ بیمار  رہنے کے بعد 17 جنوری 1966ء کو چکوال کا یہ نامور سپوت خالق حقیقی سے جا ملا۔ سیٹھ عباس خان نے ایک بھر پور زندگی گزاری اور نہ صرف اپنی زندگی کو محنت سے سنوارا بلکہ اردگرد کے لوگوں کی زندگی بھی بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی تعمیر کرائ گئ" عباس منزل" ان کے اعلیٰ ذوق کا پتہ دینے کو آج بھی موجود ہے۔ 
 (مضمون کا ماخذ ۔۔۔۔۔۔مجلہ "ونہار" گورنمنٹ ڈگری کالج بوچھال کلاں چکوال)
..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.