بلوچستان کا مصروف مگر پر امن شہر


ملک فداالرحمن
خالق ِ کائنات کا ارض و سما کا یہ نظام، اس میں مخلوق کی موجودگی اور نمو بے مقصد نہیں۔ ہر شے اپنے دائرہ اختیار میں مصروفِ عمل، اپنی روزی کی تلاش میں سرگرداں، اپنی فطرت کی رو میں بہتی اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروفیت کا احساس دلائے زندگی کے سفر میں رواں دواں ہے۔ہر جاندار، انسان، حیوان، چرند پرند، مالک ارض و سما کے دئیے شعور میں منزل کی تلا ش میں سرگرداں، شعوری اعتبار، عقلی استعداد، دلی جذبات اور احساسات کی جو توفیق قادر مطلق نے انسان کو دی وہ کسی اور مخلوق کا خاصہ نہیں۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بے حد و حساب خزانے، جو اس دنیا کی خوبصورتی کا باعث بنے، انسانی کاوش سے آشکارا ہوئے۔اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وہ سلسلہ جو انسانی بقا کا باعث بنے، انسانی دھڑکنوں میں رواں دواں ہے۔ انسانی وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے،  نعمت خدا داد ہے۔ جو پانی اور ہوا ہے اپنے آقائی نظام سے منسلک انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنے عمل میں مصروف ہے۔کائناتی نظام کی لاتعداد نعمتیں جو انسانی زندگی کی معاون ہیں کارکردگی بڑھانے کی کاوش میں مددگاراور نظام ہستی کو چلانے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس قدر پابند،  اس قدر مسلسل اور اس قدر مستقل ہیں کہ انسانی سوچ اور اختیاری حدود سے باہر ہیں۔جو نظام ہستی میں کبھی خلل نہیں ڈالتے اور یہی وجہ ہے کہ شب و روز کی رعنائیاں ہماری بے راہ روی کے باوجود ہمیں فائدہ پہنچانے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتیں۔جب روح کی پنہائیوں کا ادراک کیا جائے تو یہ خون کی گردش،  یہ دل کی دھڑکنیں،  یہ سانسوں کی بہاریں، اعضاء کی جنبش،  سوچوں کے زاویے،  رویوں کاخلل روح کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔تخلیق کائنات میں انسانی وجود پر اگر غور کریں تو مخلوقِ خدا میں انسان کو افضلیت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔جب انسانی وجود کی گہرائی کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے دو اجزاء سامنے آتے ہیں۔ روح اور جسم۔جسم گوشت پوست کا وہ ڈھانچہ ہے جس کی کارکردگی روح کے بغیر ممکن نہیں۔ روح کی موجودگی ہی سے گردش خون کا عمل،  سانس کی آمدورفت کا نظام،  ذہنی بلندیوں کی معراج،  جرأت نمو کی فطرت،  جذبات اور احساسات کی موجودگی اسی میں پنہاں ہیں۔نظام ہستی میں مخلوقِ خدا کی خوراک جو جسمانی نشوونما اور بڑھوتری میں مدد دیتی ہے وہ اس ارضی ارتقاء،  اس میں پوشیدہ خزانوں کی تلاش،  نعمتوں اور وسائل کی موجودگی،  انسانی جدو جہد،  عقل و دانش اور مسلسل عمل کے مرہونِ منت ہے۔روز آفرینش سے آج کی ترقی کے مدارج صدیوں پر محیط انسانی جدوجہد کا ثمر ہیں۔سائنسی ترقی اور انسانی ذہن کی گہرائیوں نے جن پوشیدہ خزانوں کو تلاش کیا،  انسانی ضروریات کے لئے استعمال کیا،  فاصلوں کی دوری کو ختم کیا اور فلکیاتی نظام میں داخل ہونے کی کوشش کی وہ کسی آنکھ سے اوجھل نہیں۔نہ ہی یہ صرف انسانی وجود کا کمال ہے بلکہ روح کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔روح جو انسانی عظمت کا اہم ترین جزو ہے۔ آفاقی پیوند کاری ہے۔ جس کا رشتہ انسانی ڈھانچہ سے منقطع ہو جائے تو انسان محض ایک بے جان ڈھانچہ،  ناکارہ مشین جس کاکوئی کل پرزہ کارآمد نہیں اس کی آفادیت بطور انسان مٹ جاتی ہے۔یہ قدرت کا وہ انمول عطیہ ہے جو قلبی کیفیات سے خوراک لیتا ہے،  جو کارخانہ  ئ قدرت میں غور و فکر کا متقاضی ہے۔یہ قدرت کاملہ کی صفات اور اس کے دیے ہوئے خزانوں اور نعمتوں کا تدبر کرنے سے بڑھتا ہے۔ جب انسان اپنی کمزوری، اپنی بے بسی اور اپنی مجبوریوں کا نظارہ کرتا ہے۔ اپنے ارادوں میں ناکامی، اپنی فکر میں ہلچل،  اپنی حقیقت کا ادراک، اپنی ابتدا اور انتہا پر غور کرتا ہے تو روحانی معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہی ابتداء ہے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی پہچان کی۔ بلوچستان پاکستان کا انتہائی پسماندہ صوبہ ہے جہاں پرائیویٹ سکول تو درکنار گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں بھی سٹاف حاضر نہیں ہوتا۔یہ ایک خاص مافیا ہے جو بلوچستان کے بچوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتا۔لیکن لسبیلہ ضلع چونکہ کراچی کے شہر کے نزدیک آتا ہے۔ اس لئے یہاں آسانی سے اساتذہ بھی مل جاتے ہیں اور تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں۔میری اطلاع کے مطابق حَب بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ ہے۔ بلوچستان جیسے صوبے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ صرف ایک تحصیل کی سطح کے شہر میں کم و بیش 300صنعتی یونٹ ہیں۔جہاں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں ان میں 90فیصد ہنر مند لوگ روزانہ کی بنیاد پر کراچی سے بسوں پر آتے ہیں۔حَب بلوچستان کا شہر ہے لیکن کراچی سے صرف25کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ان صنعتوں میں کام کرنے والے ورکرز کو فیکٹریوں کے مالک اپنی ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں۔300صنعتوں کے لوگوں کو ایک ہی وقت میں کراچی سے بلوچستان میں داخل ہونا اور ایک ہی وقت میں واپس کراچی جا نا ہوتا ہے۔آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں ٹرانسپورٹ کا کیا حال ہوتا ہوگا۔لیکن حَب کے لوگ اسسٹنٹ کمشنر روحانہ گل کاکڑ کا نام سنتے ہی ان کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں کہ یہ خاتون صبح اور شام کس خوبصورت حکمتِ عملی سے ٹریفک کو کنٹرول کر کے لوگوں کو آسانی فراہم کر رہی ہوتی ہیں۔خاص طور پر کورونا جب سے شروع ہوا ہے وہ ایک ٹرینڈ آرمی آفیسر کی طرح صبح کی ٹریفک کو حَب میں داخل کرانے کے بعد شہر بھر کا گشت کر کے کورونا کی پابندی کرانا،  پھر شام کے وقت فورسز کو الرٹ کر کے ایک ہی وقت میں اتنی زیادہ ٹرانسپورٹ کو گزارنے کے مرحلے کو طے کرنا۔پرائیویٹ سکولز والوں نے مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔کیونکہ پڑھانا ان کا مقصد نہیں تھا بلکہ فیسیں وصول کرنا تھا۔انہوں نے میڈم اسسٹنٹ کمشنر روحانہ کا کڑ کو ہر طریقے سے ڈرانے،  دھمکانے اور احتجاج کرنے کی دھمکیاں دیں۔اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ نے ایک ہی مؤقف رکھا کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم مسئلہ جسم اور روح کے رشتہ کو جوڑ ے رکھنا ہے۔اولاد بڑی پیاری چیز ہے اور پھر یہ بچے پاکستان اور بلوچستان کا مستقبل ہیں۔میں ان کے روح کا جسم سے رشتہ توڑنا نہیں چاہتی۔کچھ بھی ہو جائے ان بچوں کی زندگیوں سے نہیں کھیل سکتی۔میڈم اسسٹنٹ کمشنر کا اپنی تحصیل اور اتنے مصروف شہر پر ایڈمنسٹریشن کے لحاظ سے مکمل کنٹرول ہے۔صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے حَب میں باقاعدہ ایک انتہائی منظم چیمبر آف کامرس ہے۔ وہ لوگ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کے اخلاق اور مثبت کاموں کی درخواست پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ہسپتال میں دوائیوں،  ایمبولینسز کی مرمت،  فرنیچر،  گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں سامان کی ضرورت ہو تو تقریبات کا انعقاد کرنا ہو،  چیمبر آف کامرس کے لوگ میڈم روحانہ کاکڑ کے ایک فون کال پر وہ سب چیزیں توقع یا ڈیمانڈ سے زیادہ مہیا کر دیتے ہیں۔حَب میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایمبولینسز سمیت کوئی ٹرانسپورٹ رک گئی ہو۔میڈیسن نہ ملی ہوں چیمبر کے لوگوں میں قربانی کا جذبہ اپنی جگہ لیکن ان کو اعتماد میں لینا۔انہیں یقین ہو نا کہ ہمارا پیسہ جائز جگہ پر لگ رہا ہے،  اس کا 100فیصد کریڈٹ میڈم روحانہ کاکڑ کو جاتا ہے۔روحانہ کاکڑ چیمبر کے لوگوں کو بھی کبھی کوئی ناجائز کام نہیں کہتی اور خود بھی ان کے جائز کام میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔اس لئے کاروباری طبقے میں انہیں انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔روحانہ کاکڑ کا پورا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ان کے خاندان کے کافی لوگ وفاقی حکومت سمیت اعلیٰ عہدوں پر کا م کر رہے ہیں۔صرف حَب جیسے صنعتی شہر کی اسسٹنٹ کمشنر کی ذمہ داریاں بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ تمام ڈپٹی کمشنرز سے بھی زیادہ ہیں۔جس کو روحانہ کاکڑ بطور اسسٹنٹ کمشنر سر انجام دے رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.