عظمیٰ خان بمقابلہ ملک ریاض قسط وار قومی ڈرامہ



(سبط حسن گیلانی،برمنگھم)

 میرے بھائیو بہنو مترو سجنو ساتھیو یہ ایک مسلسل قسط وار کھیل ہے جو پچھلے ستر سالوں سے ہمارے قومی سٹیج پر کھیلا جا رہا ہے۔میں نے اس پر پہلے نہیں لکھا کہ مجھے اس کا انجام معلوم تھا اور اس کا انتظار بھی۔ جو حسب توقع بہت جلد سامنے آ گیا۔ میں نے اسے ڈرامہ اور کھیل لکھا ہے،ہے یہ کھیل ہی مگر فرضی نہیں حقیقی ہے۔ اس میں جتنے بھی کردار نمودار ہوتے ہیں وہ سب کے سب حقیقی زندگی کے اصلی کردار ہوتے ہیں۔ اس کھیل کے رائٹر  ہدایت کار تخلیق کار سرمایہ کار بھی سب حقیقی ہیں۔ تیسری نسل ہے ہماری جو اس کھیل کو دیکھ  رہی ہے  اس کا حصہ بھی ہے اور اسے اپنی زندگیوں پر بھگت بھی  رہی ہے۔ اس کھیل کا نام بدل جاتا ہے کردار اور مقامات بدل جاتے ہیں مگر کہانی نہیں بدلتی نہ ہی اس کا آغاز اور نہ ہی انجام۔ آپ بور نہ ہوں چلیں اس کھیل کی تازہ ترین قسط کی کہانی سنیں۔ زیادہ تر سن چکے ہوں گے جنہوں نے نہیں سنی وہ سن لیں۔ عظمی خان سسٹرز نے صلح کر لی مگر ایک ٹکا وصول کیے بغیر۔ جی ہاں ایک کھوٹا روپیہ بھی انہیں ادا نہیں کیا گیا۔ یہ صلح کروائی بنی گالوی نئے پاکستان کے معمار ٹولے کے اہم ترین مستری جناب عون چوہدری نے۔ جنہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ دو پاکستان نہیں تمہارے لیے ایک پاکستان بنائیں گے۔ عون چوہدری صاحب نے وکٹم بہنوں کو بتایا کہ بزرگوار تاجی کھوکھر تم سے سخت ناراض ہیں بلکہ کچھ کچھ غضب ناک بھی اور جب وہ کسی سے ناراض یا غضب ناک  ہوتے ہیں تو پھر اسے کہیں بھی جائے اماں نہیں ملتی اتنا تو تم بھی جانتی ہو۔ یہ جو حسان نیازی نام کا لونڈا ہے اپنے ماموں کے نام پر اکڑ رہا ہے وہ خود تو ماموں کی وجہ سے بچ جاے گا مگر تمہیں ہر گز بچا نہیں پائے گا۔ تمہارے فن کا ایک بھی قدر دان تمہیں اپنے آس پاس کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اگر تمہیں اپنی زندگی اور اس سے جڑی ہوئی ساری حقیقتیں عزیز ہیں تو اس چٹے کاغذ پر انگوٹھا لگاؤ اور گھر جا کر چین کی نیند لو جو دس بارہ دنوں سے تم سے روٹھ چکی ہے۔ چنانچہ انہوں نے وہی کیا جو ہمارے حال اور شاید مستقبل کے بھی معمار جناب عون چوہدری نے انہیں سمجھایا۔ اس سارے عرصے میں پولیس عدلیہ ادنی سے عظمی تک آنکھیں اور کان بند کر کے پڑے رہے۔ عدلیہ پر تو ہم  بات نہیں کرتے مگر پولیس کی کچھ سن لیجیے۔ اس طرح کا واقعہ اگر کہیں اور رونما ہوا ہوتا تو اس کا مقدمہ چھوٹا تھانیدار بھی درج کرنے کا مجاز تھا۔ مگر یہاں ڈی آئی جی صاحب صحافیوں کو بتاتے رہے کہ ہمیں مقدمہ درج کرنے کا حکم ابھی تک موصول نہیں ہوا۔ پھر مقدمہ درج ہوا بھی تو ان کی اجازت سے جن کے خلاف اسے درج ہونا چاہیے تھا۔ میں ابھی پچھلے ایک دو برسوں کی اقساط کے نام دوہراتا ہوں۔ شاہ زیب قتل کیس۔ نقیب خان قتل کیس۔ سانحہ ساہیوال اجتماعی قتل کیس۔ وہ کم سن ملازمہ جسے جج میاں بیوی نے جلا ڈالا تھا۔ وہ مفلوک الحال نوجوان جس نے اے ٹی ایم مشین کو توڑنے کی کوشش کی تھی۔ جس کا بوقت مرگ زخمی منھ سے نکلا ہوا جملہ ا آج بھی فضاووں میں گونجتا ہے۔ تم نے انسانوں کو اس طرح سے مارنا کہاں سے سیکھا ہے اور بہت سارے کیس۔ ان سب کہانیوں کا انجام ایک جیسا آخر کیوں ہوتا ہے۔ مدعی جن پر ظلم ہوتا ہے وہ صلح کیوں کر لیتے ہیں۔ نقیب خان قتل کیس میں تو پاکستان کے طاقتور ترین شخص آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مقتول کے باپ کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا مگر کیا وہ اپنا وعدہ پورا کر پائے؟ سوچئے کہ لاقانونیت کا نظام اپنی جڑیں کتنی گہری کر چکا ہے۔ انصاف عوام کی پہنچ سے کتنا دووووور جا چکا ہے کہ اب تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے سے بھی کہیں دکھتا نہیں۔ یہاں کمزور ہمیشہ اپنے گھر جلوا کر زمینیں چھنوا کر گبھرو جوان پتر مروا اٹھوا کر بچیوں کی عزتیں سر بازار لٹوا کر بچوں کے منھ سے نوالے چھین کر کورٹ کچہری کے تنور بھر کر بھی انصاف کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں اور پھر ایک دن چٹے کاغذ پر انگوٹھا لگانے پر مجبور کیوں ہوتے ہیں؟ کبھی سوچا ہے تم لوگوں نے جو اس ملک کی اٹھانویں فی صد آبادی ہو کہ ہماری زندگیوں کی قیمت ایک مہذب ملک کے کتوں سے بھی حقیر کیوں ہیں؟ وہ کونسا طبقہ ہے جنہیں آئین اور قانون کی حکمرانی ایک آنکھ نہیں بھاتی؟ جو چاہتے ہیں کہ ان کی مرضی و منشا کو ہی ہم اپن6¤ تقدیر سمجھیں۔ سوچو اور خود ان کو پہچانو میں نے بتایا تو تم لوگوں میں سے وہ لوگ جن کی عقلیں ماؤف ہوچکی ہیں اور آنکھیں اندھی مجھ پر زبان تعن دراز کریں گے۔ میری حب الوطنی اور رائے پر سوال اٹھائیں گے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.