اور اب لائن میں لگ کر موت


فیصل اعوان

عجیب سی دہشت سے شہر کی فضائیں لبریز ہیں۔ اس دہشت کا احساس شاید زندگی میں پہلی مرتبہ رگوں میں سنسناہٹ کا باعث بننے لگا ہے۔کسی روشن دماغ شخص نے کہا تھا لاعملی بھی نعمت ہے اس فقرے کی حقیقی روح کو سمجھنے کا موقع مل رہا ہے جو نہیں سمجھتے وہ ہر احتیاط سے بالا ہیں اور جو سمجھتے ہیں۔وہ شہر کی گلیوں میں رقص کرتے موت کے سائے محسوس کر رہے ہیں شاید یہ فقرہ کچھ زیادہ سخت ہو لیکن مجھے خدشہ ہے ہماری بد احتیاطی اور بے حسی کے نتائج شاید  اسی فقرے کی صورت نکلیں لیکن اللہ کرے ہم اس صورتحال سے محفوظ رہیں۔گزشتہ دن آفس میں کام کر رہا تھا کہ ایک شخص آیا آتے ہی سلام کیا اور ہاتھ مصافحے کیلئے آگے بڑھا دیا۔میں نے سینے پر ہاتھ کر جواب دیا جس سے موصوف برہم ہو گئے اور کہنے لگے آپنے میرا سلام نا لیکر میری توہین کر دی۔عام حالات میں ہاتھ نا ملانا بد اخلاقی شمار کیا جاتا ہے اور بد اخلاقی کا احساس بھی میرے لیے لرزا دینے والا رہا ہے لیکن اپنے بچوں کی صحت کی کی وجہ سے مجبور تھا یہ پتھر بھی سہ گیاحالانکہ میرے خیال میں اسلام میں سلام کرنے کا حکم ہے ہاتھ ملانے کا نہیں حتمی رائے تو کوئی مفتی صاحب ہی دے سکتے ہیں لیکن بعض ممالک میں سلام کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر تعظیم دینا بھی رائج ہے.لیکن اسکے باوجود اس دوست کی دل آزاری پر معذرت خواہ ہوں۔
میں اسے کیا کہتا اور کیسے بتاتا کہ میرے بھائی میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھے اپنی نہیں انکی خاطر کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے دل مطمین کرنا پڑتا ہے حالانکہ میں جانتا ہوں یہ وباء ہوا کی طرح ہے جو مٹھی میں بند نہیں کی جا سکتی لیکن دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے کہ مصداق اگر دل بہلتا ہے تو آپکا کیا جاتا ہے۔
یہ ہماری بے حسی اور ہم کس حد تک کورونا احتیاطی تدابیر پر عمل کر رہے ہیں اسکی ایک مثال ہے۔
جب یہ وباء پھوٹی تو مقامی انتظامیہ نے دن رات ایک کیا اور جہاں کورونا کا مشتبہ مریض بھی نظر آیا اسکو اٹھا کر قرنطینہ منتقل کر دیا گیا.ڈپٹی کمشنر،ڈی پی او،اسسٹنٹ کمشنرز،،محکمہ ہیلتھ،پولیس اہلکار سب دن رات ایک کیے رہے اور اپنے فرائض بخوبی نبھائے جسکا حاصل چکوال میں کورونا کے سب سے کم مریضوں کی صورت سامنے آیا لیکن اس وقت بھی انتظامی افسران اور پولیس کو لاک ڈاون کامیاب بنانے کیلئے جو تگ و دو کرنی پڑی اور جو باتیں سننی پڑیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
میں معاشرے کا نفسیاتی تجزیہ کروں تو ہر شعبے میں چھوٹے چھوٹے مافیاز نے پوری قوم کو جکڑ رکھا ہے جن میں ریڑھی والے سے لیکر بڑے تاجر تک اور سکول والے سے لیکر ہسپتال چلانے والے تک اور سرکاری افسران سے لیکر سیاستدانوں تک شامل ہیں۔یہ چھوٹے چھوٹے مافیاز ہمیشہ اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں جنکے اپنے پیمانے اور اپنے قانون ضابطے ہیں جو ان کو مانے وہ درست جو نا مانے وہ غلط سیدھا سا فارمولا ہے۔سو لاک ڈاون کے دوران بھی یہ مافیاز حرکت میں آئے جنہوں نے کورونا کو ڈرامہ بنا کر پیش کیا کیونکہ ان کے مفادات پر کورونا بحران سے نبٹنے کی حکمت عملی دباو ڈال رہی تھی۔حکومت نے بھی اس رو میں بہک کر آسان راستہ چنا
پھر عید کے دنوں میں نیشنل لیول پر لاک ڈاون کا خاتمہ ہوا اور ملک بھر کی طرح چکوال کے بازار بھی خواتین سے بھر گئے جسکے نتائج اب سامنے آرہے ہیں اور چکوال جیسا محفوظ ضلع بھی اب کورونا کے مریضوں سے محفوظ نہیں رہا۔
کورونا بحران کے دوران حکومت نے بھی وہ ہی کیا جو عوام نے کیا یعنی بے حسی اور غیر زمہ داری حاوی رہی۔پاکستان کی حکومت کو کورونا سے نبٹنے کیلئے پانچ ماہ کا طویل عرصہ ملا۔دو تین ماہ میں حکومت دوسرے ممالک سے امداد لیکر ایک ڈیڈھ ماہ کا لاک ڈاون کر سکتی تھی جس سے اس بیماری کے پاوں اکھڑ جاتے لیکن حکومت بھی صرف کمنٹری تک محدود ہے اور عوام کی تو بات ہی مت کیجیے۔
سازشی نظریات ہماری گھٹی میں بچپن سے شامل کر دیے جاتے ہیں اور ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور اسکو ثابت کرنے کیلئے دلائل گھڑنا ہمارا وطیرہ رہا ہے اور ہم نے وہ ہی کیا جو ہم نے سیکھا اور کورونا کو مشکوک بنا ڈالا.اب لوگ مرتے ہیں تو مریں دکاندار اپنی چند ہزار کی دیہاڑی لگائینگے اور حکومت بیٹھ کر بھاشن دیگی اور بس……!
عموما ایک فقرہ سننے کو ملتا ہے موٹیلٹی ریٹ تین فیصد ہے فکر کی بات نہیں اور وہ نہیں جانتے تین فیصد کا مطلب لاکھوں لوگ ہیں۔حکومت کہتی ہے پیسے نہیں لاک ڈاون کہاں سے کریں۔حضور وزیر اعظم صاحب آپکو ملک کے حالات معلوم تھے آپنے تو بڑے بڑے دعوے کر کے وزارت عظمی لی تھی کیا آپ جانتے ہیں روز قیامت ان انسانی جانوں کا سوال آپ سے ہوگا۔
وہ عمر بن عبدالعزیزجنہوں نے اپنی خواہش سے حکومت بھی نہیں لی تھی وہ روتے ہوئے کہتے ہیں دریائے فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو روز قیامت جواب مجھ سے لیا جائے گا۔
جناب وزیر اعظم آپ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں آپکو اپنی کارکردگی کو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے قول پر پرکھنا چاہیے
 جس ملک میں روزانہ ناحق قتل ہوتے ہوں اور جہاں کرپشن نظام کا حصہ ہو.جہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون رائج ہو وہاں انسانی جان کی قیمت ہو کیا ہو سکتی ہے.دو تین فیصد مر جائیں کیا فرق پڑتا ہے۔
کسی غریب کا بچہ جب ٹرپ تڑپ کر اسکے ہاتھوں میں دم توڑتا ہے تو اسکی تکلیف محسوس کرنیوالا کہاں دستیاب ہوتا ہے۔آپ دو تین فیصد کی بات کرتے ہیں اس باپ کی نگاہ میں تو اسی وقت 25کروڑ لاشیں اٹھتی ہیں بے حس لاشیں۔جب کسی روڈ کنارے شخص پر فائرنگ ہوتی ہے اور وہ مر جاتا ہے تو اسکے گھر میں بیٹھے چھوٹے بچوں کو یکلخت احساس ہوتا ہے کہ انکی دنیا اندھیر ہو چکی۔
یہ اندھیرے وقت کیساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں صاحبان اقتدار
ناسمجھ سمجھ آنے سے قبل ہی رخصت ہو جائینگے انہیں چکمتے دمکتے انگارے کی جانب بڑھنے سے روک دیجیے.یہ آپکا فرض ہے۔
 ان لوگوں میں شعور ہوتا تو انہوں نے بشمول سابقین آپکو ہی چننا تھا؟ لائن میں لگ کر آپکو ووٹ دیا۔اب لائن میں لگ کر کبھی پٹرول لیتے ہیں کبھی آٹا کبھی کچھ اور اب لائن میں لگ کر خدانخواستہ موت۔
کاش یہ خوف کے سائے اور دہشت کی سیاہ رات ایک خوبصورت صبح میں ڈھل جائے اور اس قوم کے دماغ بھی منور ہو جائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.