جنرل عبدالمجید ملک مرحوم۔۔ایک عہد ساز شخصیت


 طارق محمود طالب
چیف ایڈیٹر”طلب صادق“ ملہال مغلاں 

آج  5جون ہے اورجنرل صاحب کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار برس بیت چکے ہیں۔ میں روزانہ کی طرح آج بھی ”مجید ملک سکول سسٹم جند اعوان“کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ وقت کی رفتار کس قدر تیز ہوچکی ہے۔ چار سال پر لگا کر اُڑ گئے لیکن اتنا تیز رفتار وقت بھی جنرل صاحب کی یادوں کی لو مدہم نہیں کرسکا۔میں سوچ رہا تھا کہ جنرل صاحب کے بارے میں کچھ لکھوں گا۔ اب لکھنے بیٹھا ہوں تو محسوس ہوا ہے کہ آپ کی ہمہ جہت شخصیت اورآپ کے چھوڑے ہوئے انمٹ نقوش کا احاطہ کرنے کے لیے کالم نہیں کتابیں درکار ہیں۔یہ احساس بھی ہوا کہ انسانی وجود کی عمر بہت کم ہوتی ہے لیکن جن لوگوں کو زندگی نبھانے کا سلیقہ آتا ہے ان کے کردار کی عمر بہت طویل ہوتی ہے۔انہیں صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔ایسی ہستیوں کے نقش قدم بہت مضبوط ہوتے ہیں۔
اپنی صحافتی زندگی میں کئی ایک تقاریب میں جنرل صاحب سے سامنا ہوتا رہا اورروایتی صحافیوں کی طرح کئی بار چبھتے ہوئے سوال آپ کے سامنے رکھے لیکن ہر بار اس حقیقت سے پردہ اٹھا کہ آپ کی علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات پریاداشت اور گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ آپ کو زچ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔صرف ایک تقریب ایسی تھی جس میں آپ نے اپنی ایک کوتاہی کابرملا اعتراف کیا۔ چک قادہ میں چوہدری کرم حسین کی طرف سے جنرل صاحب کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کی تقریب تھی اور سوال انٹر کالج پیر پھلاہی کے متعلق تھاکہ آپ کا شمار اس کالج کے بانیوں میں ہوتا ہے لیکناس کے قیام کے بعد آپ نے اس کی ترقی اور ترویج کی طرف توجہ نہیں دی۔آپ نے اس کمی کا اعتراف کیا اور پھر آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اب وہی کالج ڈگری کالج ہے۔دراصل ا یسی روٹین کی تقریبات میں کسی شخصیت کو پوری طرح سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
پھریوں ہوا کہ پریس کانفرنسز سے آگے بڑھ کر وقت مجھے جنرل صاحب کے بہت قریب لے آیا اور میں نے آپ کے سکول ”مجید ملک سکول سسٹم“ کا بطور ایڈمنسٹریٹر چارج سنبھال لیا۔اس سکول کی بنیاد جنرل صاحب نے 2014ء میں خود رکھی اور اعلیٰ تعلیمی کورسز پڑھانے کی ہدایت جاری کی۔ آ پ کی سوچ یہ تھی کہ ہو سکتا ہے کہ اس مردم خیز خطے سے کوئی اورجنرل مجید آجائے۔ یہ سکول جوائن کرنے سے مجھے جنرل صاحب کی قربت کے جولمحات میسر آئے وہ سنہری یادوں کے ساتھ آج بھی میرا سرمایہ حیات ہیں۔ صحافتی زندگی میں میرا اہم شخصیات سے واسطہ رہا ہے اور بہت سے لوگوں کو دیکھنے،پرکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا رہا ہے لیکن گفتگو کا جو سلیقہ، شائستگی اور رکھ رکھاؤ کا جو انداز جنرل صاحب کے ہاں دیکھا ہے وہ بہت کم شخصیات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔آپ اپنے شخصی رعب اور جلا ل کے باوجود پاس بیٹھنے والے کو اس کی کم مائیگی کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔پوری توجہ سے مخاطب کی بات سننا اور پھر مدلل اور دوٹوک انداز میں اپنی بات کہنا آپ کا خصوصی وصف تھا۔آپ اپنی کہی ہوئی بات اورکیے ہوئے وعدے کو کبھی نہیں بھولتے تھے۔اسی طرح آپ کام کرنے اور کام لینے کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانے والوں کی آپ دل و جان سے قدر کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ایسے شخص کی کوئی خامی ان کے سامنے آجاتی تو بڑی خندہ پیشانی سے اس سے درگزر کر لیتے۔آپ کے سیاسی مخالفین بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آپ نے سارے اختیارات کے باوجودکبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔
سپاہی سے لے کر جنرل تک کا سفر کرنے والے جنرل صاحب کے بارے میں مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ آپ کمانڈو بھی ہیں۔اس انکشاف کے بعد ان کی ایک بات میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی کہ آپ اللہ کے سوا کسی کا سہارا پسند نہیں کرتے تھے۔گاڑی سے ا ترتے ہوئے یا سیڑھیاں اترتے ہوئے کئی بار میں نے ہاتھ آگے بڑھایا لیکن ہر بار آپ نے کہا نہیں میں خود اتروں گا۔ آخری عمر میں بھی آپ نے بیماری کو کبھی خود پر ہاوی نہیں ہونے دیا۔آپ کی خودی اور وقار کا تقاضا بھی شاید یہی تھا۔زندگی کی مشکلات سے وہ اپنے انداز میں لڑنے کے قائل تھے۔یوں کہیں کہ آپ صرف آرمی میں ہی پیشہ ور اور مضبوط اعصاب والے کمانڈو نہیں تھے بلکہ آپ نے اپنی باقی زندگی میں بھی ثابت کیا کہ آپ عادات و اطواراور کردار کے بھی کمانڈوہیں۔ تین دہائیوں سے بھی زیادہ طویل سیاسی سفراس حقیقت کا گواہ ہے کہ آپ کو ہرانا بڑا مشکل کام تھا۔
ایک دن دوران گفتگو بات سیاست کی طرف چل نکلی۔میں نے عرض کی کہ بلدیاتی الیکشن میں آپ کا فلاں امیدواربہت کمزور ہے اور آپ کو اس حلقے میں ناکامی ہو سکتی ہے۔ آپ نے تحمل سے بات سنی اور مسکرا کے فرمایا”آپ کی بات درست ہے لیکن دیکھتے ہیں، اللہ مالک ہے۔“۔آپ جس حلقے کی طرف توجہ کرلیتے اس میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیتے تھے۔بلدیاتی الیکشن ہوئے اورمیں رزلٹ سن کر سو گیا۔ رات دس بجے میرے فون کی گھنٹی بجی۔فون اٹھایاتو جنرل صاحب کی کال دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔جنرل صاحب نے پوچھا”طارق! آپ نے اس حلقے کا نتیجہ سن لیا؟“ میں نے کہا ”جی سن لیا۔آپ کا امیدوار کامیاب ہو چکا ہے“۔۔۔ اللہ کی ذات پر کامل بھروسا اور اپنی محنت پرپورا یقین ہی وہ وصف تھا جوممبر کے طور پر آپ کو پانچ دفعہ قومی اسمبلی میں اور تین دفعہ وفاقی وزارت تک لے گیا۔یہ آپ کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے کہ آپ کا نام آج بھی نہ صرف علاقائی اور قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر عزت کی علامت ہے۔ 
جنرل صاحب کی قبر پر حاضری ہوتی رہتی ہے لیکن آج ان کی برسی تھی۔ قبر پر حاضرہوا تو بہت سی باتیں یکے بعد دیگرے سوچوں میں تھرکنے لگیں۔ محبتیں بانٹنا،نفرت اور غیبت سے دامن بچا کے رکھنا،اپنوں کے ساتھ رہنا،اپنوں کو ساتھ رکھنا،وقت کی لگامیں تھام کرپورے وقار سے چلنا، ناخوشگوار بات بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرنااور درگزر کرنا،دل و دماغ کو کینے اور حسد سے پاک رکھنا، مخالفین سے اختیار کے باوجود انتقام نہ لینا، بڑا ہو کر بھی بڑے رتبوں اور بڑے عہدوں کو تکبر کے داغ سے محفوظ رکھنا، پوری شان سے زندہ رہنا اور اطمینان قلب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا۔۔۔کیا یہ ساری خصوصیات کسی ایک شخصیت میں جمع ہوسکتی ہیں؟۔۔۔کیا کوئی شخص ون مین آرمی ہو سکتا ہے؟۔۔۔میں فاتحہ پڑھ کے قبرسے مڑا تو میرے ذہن کے صفحے پر اس سوال کا جواب ابھر چکا تھا۔میں نے مڑ کر بھیگی آنکھوں کے ساتھ جنرل صاحب کو سلیوٹ پیش کیا اور میرے دل نے گواہی دی کہ ہاں کچھ لوگ ”ون مین آرمی“ ہوتے ہیں۔ ٭٭٭
..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.